Shiddat E Tashtangi | اس کا ڈرنا بنتا تھا

 Episode 1

Novel Name : Shiddat E Tashtangi


وہ پریشانی سے اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی ۔۔ دل زوروں سے دھڑک رہا تھا ۔ ہر بار دروازہ کھلنے کی آواز پہ اس کی نگاہیں دروازے کی سمت جاتی۔

اس کی بہن اس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی اور اس کے چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی
...ویسے
وہ ڈری ہوئی لگ رہی تھی اور اس کا ڈرنا بنتا تھا تو وہ خود بھی ڈری ہوئی تھی اس کے چہرہ سے خوف واضح ہو رہا تھا
---
لیکن اس کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا اور جو بھی ہو جائے اسے یہ کرنا ہی تھا
---
عزہ ۔۔ کیا تمہیں پورا یقین ہے کہ تم یہ کرنا چاہتی ہو ۔۔۔ اس نے کوئی سوویں دفعہ پوچھا تھا
گھر سے ہسپتال آتے تک راستے میں بھی وہ شاید ہزار بار یہ سوال پوچھ چکی تھی
---
ہاں بالکل یہی کرنا ہے دیکھو میری بات سنو اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے
----
ہم نے کالج کی فیس دینی ہے ۔۔۔ کالج ختم ہونے میں صرف کچھ مہینے باقی رہ گئے ہیں۔ ۔ اور اب اس مقام پر پہنچ کر میں پڑھائی نہیں چھوڑ سکتی ۔
---
عزہ نے دنیا کا سارا بوجھ اپنے کندھوں پر محسوس کرتے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا :
وہ صوفی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن صوفیہ اسے مزید نروس کرتی جا رہی تھی جب کہ وہ تو پہلے ہی کافی نروس تھی.
...
Me sirf 9 mah bache ko rkhungi
۔۔۔ پھر ہمیں اس کے بدلے پیسے ملیں گے اور ہمارا کالج بھی ختم دیکھو میں صرف نو مہینے ہی ہے۔ ہوجائے گا ۔۔۔ اور کالج کمپلیٹ کرنے کے لئے ہمیں پیسے چاہیے ورنہ وہ ہمیں کالج سے باہر نکال دیں گے عزہ نے آخری دفعہ صوفی کو سمجھاتے ہوئے
کہا ۔۔
صوفی نے پریشان ہوتے اپنی انگلیاں چٹخائیں۔
اس کی سفید رنگت ۔ ماڈل جیسا سراپا خوبصورت دانت لمبے بال ۔۔ اور بچوں جیسی نیلی آنکھیں ۔۔۔ وہ ایک پرفیکٹ سروگیٹ بن سکتی تھی ۔ لیکن وہ پہلے ہی کافی
جبکہ دوسری طرف عزہ جس کے صرف گھنگریالے سرخ بال تھے ۔۔۔ لائٹ براؤن آنکھیں ۔۔ بھرے بھرے پھولے ہوئے گال ۔۔ اور لائٹ براؤن سكن صرف اس کے سرخ بال تھے جو اسے قدرے حسین بناتے تھے
ورنہ وہ صوفی کی طرح خوبصورت نہیں تھی ۔۔ وہ جب بھی اپنا مقابلہ صوفی سے کرتی تھی تو اسے احساس ہوتا تھا کہ صوفی اس سے کہیں زیادہ اٹریکٹو ہے
یا پھر شاید وہ کچھ ان سیکیور تھی یا پھر تھوڑی جيلس جو کہ اس کا ہونا بنتا بھی تھا کیوں کہ صوفی ایک بے حد حسین لڑکی تھی .
---
لیکن جو بھی تھا وہ اس وقت اس دہانے پر تھے کہ انہیں بہت سارا قرضہ ادا کرنا تھا کیوں کہ ان کے پاس جتنے بھی پیسے تھے وہ اپنے کالج کی فیس اور خرچے میں
ستعمال کر چکے تھے
اور اب اس وقت انہیں پیسوں کی شدید ضرورت تھی وہ دونوں بہنیں پارٹ ٹائم جاب کرتی تھی لیکن پھر بھی انکے اتنے پیسے نہیں بن پاتے تھے کہ وہ اپنا خرچہ آسانی سے
اٹھا سکیں .
کیونکہ وہ کرائے پر رہتی تھی ۔۔ اور مشکل سے گزارا کر رہی تھی اور کبھی کبھار تو ان کے پاس کھانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے اس لیے وہ اس وقت اس مقام تک پہنچی
تهى
مس
عزه
ڈاکٹر کی آواز سنتی وہ کھڑی ہوئی ڈاکٹر نے اسے اپنے آفس میں آنے کا اشارہ کیا
---
تم پریشان نہ ہونا میں تمہارے ساتھ عزو۔۔۔ تم ایک اچھی
سروگیٹ ماں بنو گی
---
صوفی نے اس کا ہاتھ تھامتے اس کی حوصلہ افزائی کی تو عزہ نے اپنا سر ہاں میں بلایا اور ڈاکٹر کے روم میں چلی گئی کیونکہ اس کو اکیلا ہی اس روم میں جانا تھا ۔
بہت شکریہ آنے کے لئے عزہ۔ ۔ ۔ میرا نام ماریہ ہے۔ ۔۔ہم نے جو بلڈ ٹیسٹ کیے تھے ان کے رزلٹ آ گئے ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ سروگیٹ ماں بننے کے لیے بالکل تیار ہے بہت مبارک ہو آپ کو ۔۔۔
لیکن اس سے پہلے کچھ ہے جو کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ جانے اس پروسس کے شروع ہونے سے پہلے
---
لیکن اس سے پہلے کچھ ہے جو کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ
جانے اس پروسس کے شروع ہونے سے پہلے
---
ڈاکٹر نے عزہ کی فائل کو چیک کرتے ہوئے کہا ۔۔ جب کہ عزہ اس بات پر خوش تھی کہ اس کے بلڈ ٹیسٹ بلکل کلیئر ہے
اور وہ کیا ہے ڈاکٹر ؟؟
اس نے گھبراتے ہوئے پوچھا ۔۔
ہمارے پاس لسٹ ہے کچھ لوگوں کی جنہوں نے آپ کو چنا بے سروگیٹ ماں کے لیے لیکن ان میں سے ایک انسان ایسے ہیں جو کہ آپ کو لاکھوں روپے دینے کو تیار ہیں جیسے یہ
آپ نے ایک صحت مند بچہ پیدا کیا ۔۔
ڈاکٹر کی بات سن کے عزہ کو شاک لگا
کیا میں اتنا اچھی ہوں کہ کینڈیڈیٹ مجھے سروگیٹ ماں بنانے کے لئے اتنے زیادہ پیسے دینے کو تیار ہے ۔۔
وہ خوشی سے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے بولی
--
ہاں بالکل کچھ ایسا ہی سمجھو ۔۔۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی سوال ہے جو کہ انہوں نے پوچھیں ہیں۔ ۔ اگر آپ کو کوئی اشو ہو تو میں بھی بتاؤں آپ کو؟
ڈاکٹر ماریہ نے پوچھا
---
جی بالکل ڈاکٹر کیوں نہیں ۔
عزہ نے گہرا سانس لیتے فضا کے سپرد کیا
خیر پہلا سوال یہ ہے کہ کیا آپ کا کوئی بوائے فرینڈ ہے ؟ ڈاکٹر ماریہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
نہیں ایسا کچھ نہیں ہے
عزہ نے اپنی انگلیاں چٹخاتے ہوئے کہا ۔۔
گد!
سیکنڈ یہ کہ مسٹر سعد آپ کے کالج کی پوری روٹین جاننا چاہتے ہیں ۔۔۔ آپ کی پسند ناپسند اور ہوبیز۔۔۔ کہاں جاتی کہاں نہیں۔۔۔ اکیلے وقت میں کیا کرتی ہیں سب کچھ
ہیں
ڈاکٹر ماریہ نے سارے سوال ایک ہی ساتھ کرلیے۔۔۔
اور اس سے پہلے ہی وہ اس سے کافی کچھ بھی پوچھ چکی تھی جیسا کہ کیا کبھی اس کا کوئی مس کیرج ہوا ؟ یہ بھی کہ اس کی شادی ہوئی ؟ اس کے کتنے بچے ہیں؟ ایمرجنسی میں اس کا کانٹیکٹ نمبر؟ اس کی ٹریول ہسٹری ۔۔۔۔ اس کے سارے کارڈز ۔۔۔۔۔ اس کے سارے گورنمنٹ ڈاکومنٹس۔۔۔ اتنا سب جاننے کے بعد بھی اب عزہ کو ایک اور فارم دیا گیا تھا
جو کہ
فل کرنا تھا سے
One pic miss
اسے یہ سب کچھ عجیب سا لگا۔ جیسے اس نے کسی کا ماڈر کیا اور اسی لیے ساری انفارمیشن لی جارہی ۔۔ اس کا انٹرویو لیا جا رہا ہے ۔۔ لیکن اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا سوائے اس کے جو پوچھا جارہا تھا اس کو سب کچھ بتانا تھا۔
اور آخر کار ڈاکٹر ماریا کو فارم دینے کے بعد وہ کمرے سے باہر آئی اور اس کو ایسا لگا جیسے اس نے اپنی روح کو بیچ دیا
لیکن پیسوں کے لیے وہ اتنی مجبور تھی کہ چاہے خود کو یا روح کو جسے بھی بیچنا پڑتا وہ بیچنے کو تیار تھی !!
تو سب کیسا رہا؟
صوفی نے تجسس سے پوچھا۔ ۔۔
کیا سمجھی نہیں؟؟ مطلب یہ کہ سارا اندر جب تھی تم؟؟؟
ہاں سب صحیح رہا لیکن مجھے تھوڑا عجیب لگ رہا ہے ۔۔۔ عزہ نے صوفی کو کمرے میں ہونے والی ساری تفصیل
آگاہ کیا
سے
او گاڈ ! ! ۔۔ اتنا سب کچھ !!! کیا insemination کیا ؟؟۔۔۔
صوفی تھوڑی ہلکی آواز میں بولی۔۔۔
نہیں ابھی تو نہیں ۔۔۔۔ جمعرات کو دوبارہ سے آنا ہے تب
in semination کریں گے۔۔۔۔
عزہ نے صوفی کی طرف نہ دیکھتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
کافی جلدی ہے
--
وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی
....
ہاں کیوں کہ لگتا ہے کہ ہونے والے پیرنٹس وہ جو بھی ہے جلد از جلد کرانا چاہتے ہیں
اور مجھے لگتا ہے اسی لئے وہ مجھے اتنی زیادہ پیسے دینے
کو تیار ہیں۔۔۔۔
عزہ نے نرمی سے کہا۔ ۔۔۔
کیا تو تمہیں لگتا ہے کہ تم اس کے لیے تیار ہوں؟؟ مطلب
تمہیں پورا یفین ہے کیونکہ اتنا لمبا پروسس ۔۔۔ مطلب کتنا
لمبا ثائم ..
--
صوفی نے دوبارہ سے وہی سوال کرنا شروع کیے۔۔ اس کی بات سن کر عزہ نے تقریبا خود کو منا لیا تھا کیونکہ صوفیاء اسے کنفیوز کر رہی تھی
--
میں اب پیچھے نہیں ہٹنے والی صوفی اس لیے تم پلیز دوبارہ سے ایسا کوئی سوال مت پوچھنا ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے ۔۔ میں کالج ڈراپ نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی روڈ پہ پھیگ مانگنا چاہتی ہوں عزہ نے اس بار جلاتے ہوئے کہا۔۔۔ اچھا نہ بس ٹھیک ہے غصہ نہ ہو۔
تمہیں بس یہ یقین دہانی کرانا چاہتی تھی کہ تم ٹھیک ہو ۔۔ دیکھو یہ سب جو بھی ہو رہا ۔ ۔۔۔۔ یاد رکھنا یہ صرف تمہارے لیے نہیں ہم دونوں کے لیے ہے اسی لئے میں تھوڑا پریشان ہوں ۔۔۔
صوفیا نے فکرمندی سے کہا۔ ۔۔۔
تم پریشان نہ ہو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔
عزا نے اسے یقین دہانی کرائی اب آگے کیا کرنا ہے
جیسے ہی وہ ہوسٹل سے باہر نکلے صوفی نے عزہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
وہ اپنے اپارٹمنٹ کی طرف چل پڑی کیونکہ عزہ کو تو کل دوبارہ سے واپس آنا تھا کنٹریکٹ سائن کرنے کے لیے اور بےبی کے ہونے والے پیرنٹ سے بات کرنے کے لیے وہ امید کر رہی تھی کہ سب کچھ اچھے سے ہو جائے ۔۔۔ اس نے فضا ایک گہری سانس خارج کی۔
اور اپنے ایک کمرے والے اپارٹمنٹ کی طرف چل پڑے کیونکہ وہ سب سے سستا تھا اور یہ کہ ان کے کالج کے بھی پاس تھا اور اس کے علاوہ وہ کچھ اور افورڈ بھی نہیں
سکتے تھے
عزہ اس وقت چودہ اور صوفی پندرہ سال کے تھے جب ان کی والدین کا کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا اور اس حادثے کو پورے چار سال گزر چکے تھے ۔۔۔ اور ان کے پاس سارے پیسے ختم ہوچکے تھے کیونکہ ان کے والدین بھی کوئی امیر کبیر نہیں تھے بلکہ وہ بھی اسی طرح سے گزارا کرتے تھے۔۔۔
اپارٹمنٹ میں پہنچ کر انہوں نے اپنی کلاس لی جو کہ کالج نہ جانے کی وجہ سے مس ہو گئی تھی اور پھر کھانا کھایا ہر روز کی طرح وہی دال چاول ۔۔۔ دونوں نے مووی دیکھیں اور پھر بستر پر لیٹ گئی
عزہ نے صوفیا کہا کہ وہ کل کالج میں اس ائینڈنس لگوا دیں گی کیونکہ وہ تو ہسپتال جائے کنٹریکٹ سائن کرنے اور صوفی کو ہسپتال لے کر نہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ شاید اپنی باتوں سے عزہ کا پھر سے ذہن تبدیل کر دیتی۔
اورہ عزہ نہیں چاہتی تھی کہ ایسا ہو کیونکہ اس کنٹریکٹ کے علاوہ اب اسے اپنی زندگی میں کوئی بھی امید دکھائی
نہیں دے رہی تھی ۔
اگلے دن عزہ ہسپتال گی اور کچھ دیر انتظار کیا جب تک ڈاکٹر ماریہ نے اسے اپنی روم میں بلایا تاکہ کنٹریکٹ سائن
کر سکیں
---
اس سے پہلے کہ تم کنٹریکٹ سائن کرو میں چاہتی ہوں
تم کسی سے ملو۔۔
ڈاکٹر ماریہ بولیں ۔۔
کہ
میں
آپ کو اس ہونے والے بےبی کے پیرنٹ سے ملوانا چاہتی ہوں ۔۔یہ ہیں مسٹر سعد!
ڈاکٹر ماریہ نے تعارف کروایا اور عزہ کی آنکھیں جیسے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اپنے سامنے خوبرو شخص کو
دیکھ کر ۔۔
او مائی گوڈ !
وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔۔
عزہ نے ایک نظر اس کو دیکھا ۔۔ چھے فٹ لمبا آدمی ...کلین شیو ۔۔ جل سے سیٹ کیے ہوئے بال اور اس کی اوشن بلیو
آئیز جو اس نے پہلے کبھی عزہ نے ایسا خوبرو شخص نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔ اسے غور سے دیکھتے اسکی باڈی دیکھتے نہ چاہتے ہوئے بھی اسکی نظریں اسکے سینے سے ہوتی نیچے کی
کہ عزہ کو دیکھنے میں مصروف تھیں
طرف گئیں اور اس نے فورا نظروں کا رخ بدلا ۔ ۔۔
پہلے وہ ڈر رہی تھی کہ کیا ہوگا؟؟؟ کیسے ہوگا؟؟
لیکن اب وہ چاہتی تھی کہ جلد از جلد پروسس شروع کیا جائے یہ جان کر کے ہونے والے بچے کا باپ سامنے کھڑا ایک
وجاہت بھرا مرد ہیں اس کا دل خوشی سے جھوم رہا تھا
آخر کار آپ سے ملاقات ہوگی آپ سے مل کر خوشی ہوئی ! مسٹر سعد نے عزہ کی طرف دیکھتے ہلکے سے مسکراتے
کہا۔ ۔۔
اس کے گھمبیر بھاری آواز سنتے عزہ کو اپنے جسم سے
جان نکلتی محسوس ہوئی !! او گاڈ!! میں
نے خود کو کس مشکل میں ڈال دیا !!
اس نے دل ہی دل میں سوچا !!
ہ۔ ہا۔ ہائے!
3
نی
اس نے کانپتے ہوئے اپنا ہاتھ مسٹر سعد کی طرف بڑھایا اسے لگ رہا تھا کہ جیسے ابھی اسے کچھ ہو جائے گا ۔۔۔
میں
آپ لوگوں کو کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دیتی ہوں۔۔۔۔ مجھے امید ہے کہ آپ کچھ چیزوں کو لے کر آپس ڈسکس کرنا چاہیں گے ۔ میں
ڈاکٹر ماریہ یہ کہتے ہوئے روم سے باہر چلی گئی۔ ۔۔
ایم سوری اس طرح وقت سے پہلے بلانے کے لیے میں جانتا ہوں آپ کو دو ہفتے بعد کا کہا گیا تھا لیکن اب میں چاہتا یہ insemination جلد سے جلد ہو جائے
ہوں
کہ
اس کی آواز سنتے عزہ کو اپنے جسم میں کپکپاہٹ
محسوس ہوئی تھی
--
نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ کوئی بات نہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے اس ---- یقینا آپ کی بھی کوئی وجوہات ہوگی
----
سمجھنے کے لئے بہت شکریہ
---
اس نے اپنے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے کہاں اور عزہ کی آنکھیں تو بس اسکا دیدار کیے جارہی تھیں۔۔۔
اس کی آواز عزہ کو اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ سارا دن اس کی آواز سنتی رہے ۔۔۔ اسکے گدگدی سی ہونے لگی
دل میں
اس نے ایک نظر سامنے کھڑے شخص کے سراپے کو دیکھا اس نے نوٹ کیا کہ وہ بہت زیادہ حسین تھا اور کافی الگ سا لگتا ہے اب تک اس نے جتنے لوگوں کو دیکھا تھا کوئی بھی ایسا نہیں تھا
---
وہ کچھ بول ہی لگی تھی کہ اسی وقت مسٹر سعد کا ہو بہو شخص کمرے کا دروازہ کھولتے کمرے میں داخل ہوا ۔۔
تمہارے حیران ہونے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ تمہیں بالکل
بھی اندازہ نہیں ہے کہ ہم دونوں کون ہیں؟ ۔۔
اس نے اندر داخل ہونے والے شخص کو حیران کن نظروں
سے دیکھا ۔
--
عزہ کو ہکا بکا دیکھ کے کمرے میں داخل ہونے والے شخص
نے کہا۔۔۔
نہیں وہ جیسے مجھے بتایا گیا تھا کہ ۔۔۔
وہ بولتے بولتے رکی
----
جی میں ہوں سڈ! یعنی میں ہوں مسٹر سعد! ایس بچے کا
ہونے والا ڈیڈ میں ہوں
---
پہلے سے موجود کمرے میں مسٹر سڈ نے بولا۔۔
تو عزہ نے سر اثبات میں بلا یا کہ جسے ا سے سمجھ آگئی
ہے
اور میں ہوں ہادی بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر
عزه!
عزہ نے نوٹ کیا تھا کہ بادی نے اسے سر سے لے کر پاؤں تک غور سے دیکھا تھا۔ ۔۔
وہ جلدی سے چیئر پر بیٹھ گئی کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ ان کی باتیں سن کر بیہوش ہو جائے۔۔۔
تو وہ دونوں بھائی جڑواں تھے۔ ۔ ۔ لیکن جو بھی تھا وہ
دونوں بے حد حسین تھے
---
وہ دراصل مجھے صرف نام بتایا تھا مجھے نہیں بتائی گئی تھی مزید تفصیل اور نہ ہی مجھے پتا تھا اس بارے
میں
---
اس نے ایمانداری سے کہا کیونکہ اسے واقعی نہیں پتا تھا
جیسا کہ تمہیں ہم دونوں کے نام پتا چل گیا ہے تو کیا
اب تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ ہم کون ہیں؟۔۔۔
بادی نے سوال پوچھا ۔۔
عزہ نے فورا سے اندازہ لگایا کہ ہادی غصیلہ ، کچھ اکڑو اور روعب جمانے والا تھا جبکہ اس کا دوسرا بھائی سعد وہ کافی کائنڈ اور سویٹ نگ رہا تھا
عزہ کو لگا جیسے پھر سے اسکا انٹرویو ہونے والا ہے ۔۔۔ اس نے اپنا ہونٹ دانتوں تلے دبایا۔ ۔۔ اسے اس وقت ایسے لگ رہا تھا کہ وہ ایک چھوٹی سی بچی ہے اور اس کے سامنے دو
بڑے طاقتور مرد جو اسے دیکھ رہے ہیں۔۔۔
کیا مجھے پتہ ہونا چاہیے؟ میں معافی چاہتی ہوں لیکن مجھے کوئی اندازہ نہیں ہے کہ آپ دونوں کون ہیں۔
اس کا دل چاہا کہ وہ وہاں سے بھاگ جائے روئے ۔۔
دونوں بھائیوں نے ایک نظر اس کو دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو ۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ وہ کچھ کہہ رہے ہو
میں
ڈاکٹر ماریہ سے آج کہنے والی تھی تاکہ مجھے وہ
بتائیں اس بارے میں ۔۔
تو مطلب تمہیں بالکل بھی نہیں پتہ ہم دونوں کے بارے میں ۔۔۔ یہ تو تھوڑی انسلٹ کرنے والی بات ہے ہماری ۔۔
سعد نے کرسی پہ بیٹھتے ہوئے کہا۔ ۔
او گاڈ! !!!
کیا ؟؟؟؟ لیکن ۔ ۔۔۔ آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں کہ آپ کسی غلط کام میں ملوث ہیں کسی غیر قانونی کام میں ۔۔۔؟؟؟
(میں نے ایسا پہلے کیوں نہیں سوچا ان کی ڈریسنگ وہ بلیک ڈریس میں تھے اور ویسے بھی بادی کے ہاتھ پہ ایک
(....
ٹیٹو بھی تھا ۔۔۔۔
عزہ کی بات سن کے دونوں ہی مسکرائے جیسے کوئی کوئی مذاق تھا ۔۔
اس نے فوراً کمرے سے جانے کا فیصلہ کیا اور اٹھ کے جانے
لگی لیکن بادی کی آواز پر رک گئی
---
کبھی تم نے ایس ٹی ٹیچ کمپنی کا سنا ہے سعد نے سوال کیا ۔.
ہاں لیکن کیوں ۔۔۔ اور پھر عزہ کو سب کچھ سمجھ آنے لگا۔
از اس وقت دنیا کے دو امیر ترین کامیاب مردوں کے سامنے
کھڑی تھی !
دنیا کی سب سے بڑی اور کامیاب کمپنی کے مالک
دونوں بلینئر تھے۔
اس نے حیرت سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا ۔
جی ہاں!! وہ ہم دونوں ہی ہیں ۔۔
۔۔۔وہ
ہادی نے طنزیہ مسکراہٹ سے اس کے چہرے کو تکتے ہوئے کہا اور شاید اسے عزہ کا یہ ری ایکشن دیکھ کے اچھا لگا
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کافی انسلٹنگ ہے کہ تمہیں بالکل
اندازہ نہیں تھا کہ ہم کون ہیں
بادی نے کہا ۔۔
۔
لیکن ان دونوں کو ایک سروگیٹ کی ضرورت کیوں پڑی گی جبکہ وہ امیر ترین خوبصورت حسین اور سنگل تھے
تم سوچ رہی ہوگی کہ بھلا ہم کیوں ایک بچہ چاہیں گے وہ بھی ایک سروگیٹ کے ذریعے۔۔۔ بے نا یہی سوچ رہی ہو نہ
سعد نے سوال پوچھا ۔۔۔
ہاں بالکل اور آپ نے ہم کیوں کہا جبکہ میں تو صرف مسٹر
سعد کا بچہ ہی پیدا کروں گی
عزہ نے تھوڑا کنفیوز ہوتے کہا۔ ۔۔
یہ بچہ میرے بھائی کا بھی ہوگا ۔۔ حالانکہ یہ بےبی اسکا بھتیجی یا بھتیجا ہوگا۔ لیکن ہمارے بیچ ایک سرونگ بانڈ ہے تو میرا نہیں خیال کہ تمہیں کچھ عجیب لگے گا۔ ۔
سعد نے جواب دیا۔ ۔
ہاں اس میں کوئی بات عجیب بات نہیں۔۔۔ کیونکہ میرا بھی بہن کے ساتھ ایسا ہی بانڈ ہی۔ ۔۔
اوہوہ واقعی
بادی نے حیرت سے آئی برو اچکاتے کہا۔ ۔۔
ہاں میری ایک بہن ہے۔ ۔۔ ہم ساتھ رہتے ہیں۔ رہتے ہیں۔ ۔۔ ایک دوسرے
سے سب شیئر کرتے ہیں۔ ۔۔
عزہ کی بات سنتے دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کی
طرف دیکھا۔
کیا تم کوئی سوال کرنا چاہتی ہو اس سے پہلے کہ ہم کنٹیکٹ کو سائن کریں۔ ۔۔
سعد نے پوچھا ۔۔
جی۔ ۔ میں ہی کیوں؟
عزہ نے سوال پوچھا جیسے ھی مسٹر سعد نے کنٹریکٹ اسکے ہاتھ میں پکڑایا۔ ۔
کیوں کہ تم میں وہ ساری خوبیاں ہیں جو کہ ہمیں چاہیے تم خوبصورت ہو ۔۔ تمہارا ریکارڈ صاف ھے ۔ سوچ ٹھیک ہے ۔ کیئرنگ ہو۔ ۔۔ رحمدل ہو۔ ۔۔ اور فزیکلی فٹ اینڈ ۔
بیلتھی ۔ ۔ اور تمہارے بال ایک پلس پوائنٹ ہیں۔ ۔۔ بس یہی سب ہی جو ہمیں چاہئے تھا۔ ۔۔۔ اسی لیے تمہیں
حنا...
اسکی باتیں سنتی عزہ کے گال بلش کررہے تھے
اس نے کہا کہ میں خوبصورت ہوں۔ ۔۔۔ یہ بات سن کے اسے واقعی خوشی ہوئی تھی۔۔۔
اوکے۔ ۔ ۔ لیکن آپکو کیا ضرورت ایک سروگیٹ کی. کنٹریکٹ پڑھتے عزہ نے پوچھا۔۔۔
--
میرا مطلب کہ آپ دونوں دنیا کے بلینیرز میں سے ۔ ہیں۔ ۔کم
عمر اور سنگل بھی تو پھر؟ ؟
--
اگر تمہیں برا نہ لگے تو یہ بات ہم ابھی خفیہ رکھنا چاہتے
ہیں۔۔۔
سڈ نے کچھ سختی سے کہا۔ ۔۔
عزہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ ۔
میری روٹین۔ ۔ ۔ پسندیدہ جگہ وغیرہ جاننے کی وجہ؟
اس لیے اگر کبھی تم غائب ہوگئی تو؟ ؟
سڈ نے کہا۔ ۔
--
ہممم۔ ۔۔ ! سہی!
اسمیں لکھا ہے کہ اس کنٹریکٹ کے بارے میں کسی کو نہیں بتا سکتی۔ لیکن میں اپنی بہن سے جھوٹ نہیں بول ۔
سکتی۔
کیا تمہاری بہن قابل بھروسہ ہے ۔۔۔ کہ وہ اس بارے میں میڈیا کو کچھ نہیں بتائے گی۔ .
سڈ نے ۔۔ پوچھا۔
ہاں!
ٹھیک ہے پھر تم اپنی بہن کو بتا سکتی ہو ۔ لیکن اگر میڈیا تک یہ بات پہنچی تو تمہیں دیے ہوئے سارے پیسے ختم ۔ اور جتنے تم نے لیے ہونگے وہ ہمیں سود سمیت واپس
کروگی۔
سڈ نے کہا۔ ۔
اور یہ بھی لکھا ہے کہ مجھے پریگنٹ ہوتے ہی بیس لاکھ ملیں گے اور باقی کے بچہ پیدا ہونے کے بعد۔
----
اور مجھے یہی چاہیئے کیونکہ کالج کی فیس اور ضرورتیں پوری کرنے کے گیے....
وہ بڑبڑائی۔ ..
وہ بس جلدی میں کنٹریکٹ پڑھتے ہوئے بولی۔۔۔
تمہیں یقین ہے؟ کوئی جلدی نہیں ہے۔ ۔۔ تمہارے پاس پورا
دن ہے سوچنے کے لیے۔
سڈ نے کہا۔ ۔
نہیں۔ ۔ میں تیار ہوں! ! سائن کرنے کے لیے۔ ۔۔
عزہ کی طرف مسکرا کے دیکھتے ہوئے سڈ نے اسے پین
پکڑایا۔۔۔
اس نے کانپتے ہاتھوں سے سائن کیا اور سڈ کو پین واپس .
کردیا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Blog ads