کوئی بھی انسان جب غور و فکر کرتا ہے

 کوئی بھی انسان جب غور و فکر کرتا ہے، تو اس کے اندر کی کچھ سوچیں اچانک سے ایک دوسرے کو ڈھونڈ لیتی ہیں، اور ان میں کچھ نئے معانی پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے کچھ سلجھ گیا ہے۔



ہر شعبہ زندگی کا انسان، سوچتے سوچتے کسی ایسی سطح تک پہنچ جاتا ہے، جہاں اسے کوئی نئی، کوئی اچھوتی، کوئی بہت ہی بڑی سوچ مل جاتی ہے۔ وہ اسے ایک تخلیقی سوچ سمجھتا ہے۔ کسی مسئلے کی انڈرسٹینڈنگ سمجھتا ہے۔ کسی دریافت، کسی ایجاد، کسی تخلیق کا سرچشمہ سمجھتا ہے۔
یہ ہر سوچنے والے کا تجربہ ہے۔
نیکی کے کاموں میں خوشی اور خوبصورتی محسوس کرنے والے کے غور و فکر کا بھی یہی حال ہے۔
بندہ اسے کیا نام دے؟ سوچوں کے جڑنے اور معانی کے وارد ہونے کو کیا نام دے؟ کوئی اسے کشف کہہ دیتا ہے، کوئی الہام کہہ دیتا ہے۔
جنہیں اس بات کا تجربہ نہیں ہوتا، وہ اعتراض کرتے ہیں۔
آرٹس میں اس کا نام کوئی اور ہے، شاعری میں کوئی اور ہے، سائنس میں کوئی اور ہے، بزنس اور سیاست میں کوئی اور ہے۔ یہ کوئی برائٹ آیڈیا ہوتا ہے، جو ایک انسان کے کام کو دوسرے سے مختلف کر دیتا ہے۔ اسے ایک الگ پہچان دلوا دیتا ہے۔
نیکی کے کاموں میں محسوس ہونے والے اچھے احساسات اور خیالات کو بیان کرنے کی بھی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ اعتراض انہیں بیان کرنے والے الفاظ پر ہے۔ اگر کوئی اور الفاظ استعمال کر کے بیان کر دیا جائے تو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
لیکن کشف و وحی و الہام یا ایسے دوسرے الفاظ جو انبیاء اور مرسلیں علیہم السلام سے مخصوص ہیں، انہیں استعمال کرنا تو مناسب نہیں ہے۔
حالانکہ نوعیت کے اعتبار سے یہ ویسے ہی خیالات ہوتے ہیں، جیسے آرٹس اور سائنسز اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں سوچنے والوں کو نصیب ہوتے ہیں۔
مثلاً، آپ غور کریں، کہ مخلصین کون ہیں، خلوص کیا ہے، تو اس کی ایک تعریف تو آپ کو ڈکشنری سے مل جائے گی، لیکن ایک سمجھ آپ کو غور و فکر سے نصیب ہو گی، آپ سوچتے رہیں گے، نیک عمل کرتے رہیں گے، اور زندگی کے کسی حصے میں آپ کو مخلص، خالص، خلوص، وغیرہ کے معانی وا ہو جائیں گے، القاء ہو جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسائل کی سمجھ اور ان کے حل سے متعلق سوالات اور جوابات، ہر فیلڈ میں آتے ہیں۔ یہ آتے کیوں ہیں، آتے کس طرح ہیں، اس کا فیصلہ آپ خود کر لیں۔ میں سمجھتا ہوں، یہ انسان کے اپنے اندر کی سوچوں کا ایک نظام ہے۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ باہر سے کوئی طاقت انہیں انسپائر کر رہی ہے یا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر نیکی اور بدی کا نظام ودیعت کر رکھا ہے۔
سورۃ الشمس میں ہے، کہ:
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاہَا۔
اور جان کی اور اس کی جس نے اس کو درست کیا۔
فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوَاہَا۔
پھر اس کو اس کی بدی اور نیکی سمجھائی۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا۔
بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے اپنی روح کو پاک کر لیا۔
وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاہَا۔
اور بے شک وہ غارت ہوا جس نے اس کو آلودہ کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اپنے تصور میں اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوں، نماز میں یا دعا میں، یا کسی بھی اور لمحے، اور گڑگڑا رہے ہوں، یا معافی مانگ رہے ہوں، یا شکر کر رہے ہوں، یا پناہ مانگ رہے ہوں، یا محبت محسوس کر رہے ہوں، اور آپ کے ذہن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی کوئی خیال آ جائے، اور آپ اسے اللہ تعالیٰ کا جواب یا اذن یا حکم سمجھنے لگیں، تو آپ کی مرضی ہے۔
میں تو اسے اپنے ہی اندر کی کسی سوچ کا نتیجہ سمجھتا ہوں۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ اتنا محسوس ہونا بھی ایک بڑی خوش نصیبی کی بات ہے، لیکن بہرحال یہ میرا ایک ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے۔
میں اس پر عمل بھی کرنے لگوں، اور دوسرے لوگوں کی بہتری کی نیت کر کے شئیر بھی کر دوں، لیکن ہو گی یہ میری ذاتی سمجھ بوجھ، ذاتی انڈرسٹینڈنگ۔
میرے نزدیک اس کی وقعت اتنی ہی ہے جتنی دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں تخلیقی خیالات کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Blog ads