نایاب۔۔۔۔۔۔! ایک شیطانی طاقت
ایک اور ناقابل یقین سچ
پارٹ نمبر 2 آخری
واجد نے کہا دیمی بھائی میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں اور میں یہ بالکل بھی نہیں کہہ رہا کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں ۔ بلکہ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے آپ کو نایاب کو لے کر کسی بھی قسم کا کوئی وہم ہو گیا ہو ۔ واجد کی یہ بات سن کر میں بھی اس پر مسکرانے لگا ۔ کیونکہ مجھے پتا تھا اب اس کو میں یقین نہیں دلا سکتا تو میں نے کہا چلو یار چھوڑو اس بات کو جب یہ ہوش میں آئے تو اس کو کھانا کھلا دینا یاد سے کیونکہ اس نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا ۔ واجد نے نایاب کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا جی ٹھیک ہے دیمی بھائی ۔ یہ سن کر جب میں واپس نیچے جانے لگا تو واجد نے مجھے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا دیمی بھائی اس کو ڈاکٹر کے پاس نہ لے چلیں ؟؟؟ میں نے کہا یار اس کے منہ پر پانی شانی مار کر دیکھو ہوسکتا ہے ہوش میں آجائے اور اگر نہ آئی تو مجھے بتانا میں ڈاکٹر صاحب کو ادھر ہی لے آؤں گا۔ یہ کہہ کر میں نیچے آگیا اور اپنے کمرے میں جا کر بیٹھ گیا کیونکہ مجھے غصہ تھا کہ واجد نے میری بات کو نہیں سمجھا پھر میں نے سوچا چلو خیر ہے امید کرتا ہوں کہ واجد کی بات ہی درست ثابت ہو جائے اور نایاب بالکل ٹھیک ہو جائے ۔ اتنے میں ماجد میرے پاس آیا اور بولا دیمی بھائی آپ نایاب کے پاس گئے تھے۔۔۔ ؟؟ کیا اس نے آپ سے کچھ کہا؟؟۔ میں نے چڑچڑے انداز میں کہا نہیں یار اس نے مجھے کیا کہنا ہے ویسے بھی ہم لوگ پاگل ہی ہیں جو ایسا سوچتے ہیں تیرا بھائی بیٹھا ہے اس کے پاس... ماجد نے کہا سوری بھائی لگتا ہے آپ غصے میں ہیں کیا کوئی بات ہو گئی ہے واجد بھائی سے ؟ میں نے کہا ارے نہیں یار بس مجھے سمجھ نہیں آرہا کیا سہی ہے کیا غلط۔۔۔۔ تیرا بھائی کہتا ہے کہ نایاب کو لے کر ہمیں کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے اور نایاب بالکل ٹھیک ہے جبکہ ہم دونوں نے ہی اس کو خوفناک شکل میں دیکھا ہے ۔ میری یہ بات سنتے ہی ماجد نے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر بولا دیمی بھائی آپ سے ایک بات کروں لیکن وعدہ کریں کہ کسی سے میری یہ بات شئیر نہیں کریں گے ؟؟؟۔ میں نے جلدی سے اس کی طرف توجہ دی اور کہا ارے بتاو کیا بات میں نہیں کرونگا کسی سے ۔ ماجد نے کہا یہ جو نایاب ہے نا یہ شیطانی چیز ہے ۔ میں نے ماجد کو پھر سے تھوڑا چڑچڑے انداز میں کہا یار اب تو پھر سے شروع ہو گیا۔ ماجد نے کہا نہیں دیمی بھائی جب وہ پانچ سال کی تھی تو ہم نے حیدرآباد میں ایک گھر لیا تھا اس میں ایک پرانا بیر کا درخت لگا ہوا تھا ایک بار نایاب نے کھیلتے ہوئے اس درخت کے نیچے پیشاب کر دیا تھا اس کے بعد نایاب اکثر گم ہو جایا کرتی تھی اور وہ اکیلی ہی بہت دور نکل جاتی تھی اور کبھی کبھی تو وہ دروازے سے باہر نکلتے ہی غائب ہو جاتی تھی جب سب لوگ اس کو ڈھونڈ کر تھک جاتے تھے تو وہ اچانک اس درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی ملتی تھی اس وجہ سے امی ابو بہت پریشان ہو جاتے تھے پھر ایک دن دوپہر میں نایاب غائب ہوئی تو ہم نے اسے ہر جگہ تلاش کیا لیکن وہ ہمیں کہیں نہ ملی ہم نے مسجد میں اعلان بھی کرایا پر اس کی کوئی خبر نہ ملی اور جیسے ہی شام ہوئی تو نایاب درخت کی ڈال پر لیٹی ہوئی نظر آئی ابو اور واجد بھائی نے بہت مشکل سے اسے نیچے اتارا اور اگلے دن ابو ایک بابا کو ساتھ لے کر آئے اس بابا نے جب نایاب کو دیکھا تو بولا کہ اس پر دو ہوائی چیزیں ہیں اس کے علاج میں تھوڑا وقت لگے گا اگر ہم نے جلد بازی کی تو اس میں یہ بچی کی جان بھی جا سکتی ہے کیونکہ اس پر ایک مرد اور ایک عورت دونوں کا اثر ہے اور ان کو اس بچی سے دور ہٹانا اتنا آسان نہیں ہوگا ۔ پھر بابا نے ایک تعویذ بنا کر ابو کو دیا اور کہا کہ اس تعویذ کو چاند کی چوداں تاریخ کو چاند کی روشنی میں پہنانا اور یاد رہے نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد ابو نے کہا ٹھیک ہے بابا جی پر اس سے ہماری بیٹی کو کوئی خطرہ تو نہیں ہوگا؟ بابا نے کہا نہیں اس سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا پر یہ دیرپا حل نہیں ہے اس کے لیئے مجھے اور پڑھائی کرنی ہو گی ۔ یہ کہہ کر وہ بابا چلا گیا۔ پھر ابو نے چاند کی چوداں تاریخ کی رات وہ تعویذ نایاب کے گلے میں ڈال دیا تو اس کے بعد نایاب کافی بہتر ہونے لگی تھی لیکن وہ الگ تھلگ رہنے لگی تھی تب امی اور ابو نے ہم سے کہا کہ نایاب کو لے کر جو کچھ بھی ہوا اس بات کا ذکر کبھی کسی سے نہیں کرنا ورنہ لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ تمہاری بہن کا مستقبل برباد ہو جائے اس لیئے اس بات کو ابھی بھول جاؤ۔۔۔ ہم نے ابو سے کہا آپ بے فکر رہیں ہم اس بارے میں کبھی کسی سے بات نہیں کریں گے ۔ ماجد کی یہ سب باتیں سن کر میں نے کہا یار ماجد یہ تو تم تب کی بات کر رہے ہو جب نایاب 5 سال کی تھی لیکن آج وہ سولہ سال کی ہے تو کیا اب تک اس کا علاج مکمل نہیں ہو گیا تھا؟؟؟ ماجد نے کہا نہیں دیمی بھائی یہی تو سارا مسلہ ہے جو بابا جی نایاب کا علاج کر رہے تھے ایک دن ان کا اچانک اکسیڈنٹ ہو گیا تھا اور وہ کچھ دیر تک ہسپتال میں رہنے کے بعد فوت ہو گئے تھے لیکن جب میرے ابو اس بابا جی سے ملنے ہسپتال گئے تھے تو بابا جی نے میرے ابو سے کہا کہ اس بچی کا علاج مکمل کروا لینا ورنہ وہ چیزیں پھر سے اس کے اندر سما جائیں گی اور وہ بہت ہی خطرناک چیزیں ہیں جو اس کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑیں گی اور جیسے جیسے نایاب بڑی ہو گی ویسے ویسے ہی ان چیزوں کی طاقت بھی بڑھتی جائے گی اور ان کی نایاب کے لیئے چاہت میں اور اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔ یہ سب سن کر ابو وہاں سے واپس آئے پھر ابو نے بہت کوشش کی کے کسی طرح سے نایاب کا علاج مکمل کروا سکیں پر بہت سے پاگھنڈیوں کی وجہ سے ابو کے پیسے اور ٹائم ضائع ہو گیا اور نایاب بھی کافی بڑی ہو گئی اس دوران نایاب نے بہت سی عجیب حرکتیں بھی کیں جیسے کہ درخت پر چڑھ کر بیٹھے رہنا اور کچا گوشت کھانا اور رات رات دیر تک گھر سے غائب رہنا اور اندھیرے میں رہنا اگر کوئی لائٹ جلائے تو اسے مارنے کی کوشش کرنا۔ لیکن پھر ایک دن ابو کو ایک آدمی ملا جس کو نایاب کے اندر شیطانی چیزوں کے بارے میں کچھ پتا چلا تھا اور اس نے میرے ابو کو کہا کہ وہ نایاب کا علاج کرے گا تو میرے ابو نے اس آدمی سے کہا کہ اگر ہم نایاب کی شادی کروا دیں تو کیا وہ چیزیں اس کو چھوڑ کر چلے نہیں جائیں گی؟؟؟ اس آدمی نے کہا دیکھیں آپ لوگوں یہ غلطی کبھی مت کرنا جب تک نایاب کا علاج مکمل نہ ہو جائے تب تک اس کی شادی نہ کروانا۔ نہیں تو وہ چیزیں نایاب کے ساتھ اس کے شوہر کو بھی مار دیں گی کیونکہ وہ چیزیں بچن سے ہی نایاب پر عاشق ہیں ان میں سے ایک عورت ہے جو نایاب کو اپنی بیٹی سمجھ بیٹھی ہے اور ایک شیطان ہے جو نایاب کو پسند کرتا ہے اور وہی نایاب کو ساتھ لے جاتا ہے جس کی وجہ سے نایاب غائب ہو جاتی ہے یہ سن کر ابو پریشان ہو گئے لیکن اس آدمی نے ابو سے کہا آپ پوری طرح اطمینان رکھیں ہم لوگ جلد ہی چھٹکارا حاصل کر لیں گے بس نایاب کے علاج کے دوران کسی بھی قسم کے گوشت کو گھر میں نہیں لانا خاص طور پر بڑا گوشت ۔ ابو نے کہا ٹھیک ہے آپ اس کا علاج شروع کریں اور ہم ویسا ہی کریں گے جیسا آپ کہیں گے ۔ تو اس کے بعد اس آدمی نے نایاب کا علاج شروع کیا ہے وہ ہر ہفتے اس کے لیئے نئے تعویذ لے کر آیا کرتا تھا اور پرانا اتار کر ساتھ لے جاتا تھا یہ سلسلہ کچھ مہینوں تک چلتا رہا پھر ایک زور اس آدمی نے ایک تعویذ ابو کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ آخری تعویذ ہے جو کہ ساری عمر کے لیئے نایاب کے گلے میں رہے گا اور اب آپ لوگ نایاب کو نماز کی طرف قائل کریں اگر تو اس نے نماز پڑھنا شروع کر دی تو سمجھ لینا کہ اب وہ چیزیں اس پر زیادہ دیر تک نہیں ٹکنے والی اور آپ کی بیٹی پوری طرح سے ان چیزوں سے آزاد ہو جائے گی اور اگر اس نے نماز نہ پڑھی تو پھر ہمیں مزید اس کے لیئے چاراجوئی کرنی پڑے گی اور بہتر ہو گا کے آپ لوگ بھی اس کے ساتھ نماز ادا کریں ۔ ابو نے کہا جی بہتر ہے ہم ایسا ہی کریں گے ۔ پھر ایک دن ابو نے نایاب کو کہا چلو بیٹی اذان ہو رہی ہے نماز کی تیاری کرو ۔یہ سنتے ہی نایاب ابو کی طرف آنکھیں پھاڑے غصے سے دیکھنے لگی ابو نے مسکرا کر کہا کیا ہوا بیٹی ایسے کیوں دیکھ رہی ہو ؟ نایاب کچھ نہیں بولی اور ویسے ہی غصے سے ابو کی طرف دیکھتی رہی جیسے ہی ابو نے اس کے سر پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی تو اس نے ابو کا ہاتھ پکڑ کر موڑ دیا جس سے ابو کی کلائی کی ہڈی نکل گئی اور ابو نے چلا کر اس سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا پھر واجد بھائی ابو کو فوراً جراہ کے پاس لے گئے اور ابو کی مرہم پٹی کروائی ۔ اور جب ابو گھر واپس آئے تو نایاب ابو کو دیکھ کر زور زور سے ہنسنے لگی امی نے نایاب کو خاموش کرانے کی کوشش کی تو اس نے امی کے منہ پر تھپڑ مار دیا اور ہنستی ہوئی درخت پر چڑھ کر بیٹھ گئی پھر پوری رات درخت پر بیٹھی رہی اور طرح طرح کی آواز نکالتے ہوئے کبھی ہنستی اور کبھی روتی رہی ۔ اگلے دن ابو اس آدمی کو ساتھ لے کر آئے اور اس کو سارا کچھ بتایا تو اس آدمی نے کہا آپ لوگ پریشان نہ ہوں اس کا حل لے کر آیا ہوں یہ کہتے ہوئے اس آدمی نے ایک تانبے سے بنا ہوا ایک کڑا (چوڑی) نکال کر نایاب کے ہاتھ میں زبردستی پہنا دی جس کے پہنتے ہی نایاب فوراً ہی بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑی پھر اس آدمی نے کہا اب جب تک یہ کڑا اس کے ہاتھ میں ہے یہ پوری طرح سے ان چیزوں کے اثر سے بچی رہے گی اور یہ کڑا اس کو کبھی اتارنے مت دینا ورنہ دوبارہ اس کڑے کے پہنے پر بھی نایاب ان چیزوں کے اثر سے نہیں بچ سکے گی ۔ اس کے بعد نایاب نے کبھی کچھ الٹا سیدھا نہیں کیا ۔ لیکن پتا نہیں کیسے اس نے آج پھر سے اس نے وہی کرنا شروع کر دیا ہے جبکہ کڑا بھی اس کے ہاتھ میں ہے۔۔ میں نے ماجد کی ساری باتیں غور سے سن رہا تھا کہ اتنے میں آنٹی آگئیں اور اپنی امی کو دیکھ کر ماجد نے میرے کان کے پاس آکر سرگوشی میں کہا دیمی بھائی اس بارے میں امی سے کوئی بات نہ کرنا ۔ میں نے ماجد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ہاں میں سر ہلایا پھر ماجد وہاں سے چلا گیا۔ اور میں یہ سوچنے لگا کہ ان لوگوں نے ہم سے کتی بڑی بات کو چھپا کر رکھا ہے جبکہ نایاب کے اندر پہلے سے ہی شیطانی چیزیں موجود ہیں اور میں یہ سمجھ رہا تھا کہ کہیں اس پارک میں لگے درخت پر سے کوئی چیز اس پر آگئی ہے۔ پر اس کا مطلب ہے نایاب پارک میں سب ڈرامہ کر رہی تھی کہ کوئی عورت نے اس کو کاٹا ہے جبکہ وہ خود ہی ایک شیطانی طاقت ہے اور اب وہ ہمارے لیئے خطرناک ہو سکتی ہے ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں آنٹی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا بیٹا کیا بات ہے تم تھوڑا پریشان لگ رہے ہو؟ میں نے چونک کر کہا نہیں نہیں آنٹی ایسی کوئی بات نہیں میں تھوڑا تھک گیا ہوں اس وجہ سے چہرے پر تھکان ہے اور کچھ نہیں ۔۔ آنٹی نے کہا او اچھا اچھا ٹھیک ہے بیٹا تم آرام کرو میں ذرا نایاب کو دیکھ کر آتی ہوں ۔ یہ کہہ کر آنٹی چلی گئیں رات بہت ہو چکی تھی میں جا کر اپنے بستر پر لیٹ گیا اب مجھے پتا چل چکا تھا کہ واجد بھی جانتا ہے کہ نایاب میں شیطانی چیزیں ہیں لیکن اس نے مجھ سے چھپانے کی کوشش کی ہے ۔ اور اوپر سے مجھے بولتا ہے کہ مجھے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔ چلو دیکھتے ہیں اب آگے کیا کرتے ہیں یہ لوگ ۔ یہ سوچتے ہوئے میں سو گیا اور رات کو اچانک میری آنکھ کھلی تو میں نے فوراً موبائل پر ٹائم دیکھا تو 3:36 کا ٹائم ہو رہا تھا پھر میں واشروم جانے کے لیئے اٹھا جیسے ہی میں صحن میں گیا تو مجھے اوپر کے کمرے سے کسی کے باتیں کرنے کی آواز سنائی دی جسے سن کر میں سوچنے لگا رات کے 3:36 کا ٹائم ہے اس یہ وقت کون باتیں کر رہا ہے ایسا لگ رہا تھا جیسے دو تین لوگ آپس میں باتیں کر رہے ہیں اور ساتھ میں ہنس بھی رہے ہیں جبکہ باقی تمام کمروں میں خاموشی تھی پھر مجھے خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ واجد وغیرہ جاگ کر آپس باتیں کر رہے ہونگے کیونکہ وہ اوپر کی منزل پر سوتے تھے۔ لہذا میں واشروم میں چلا گیا کہ اتنے میں مجھے کسی کے تیزی سے سیڑھیاں اترنے کی آواز آئی اور پھر واپس تیزی سے اوپر کی طرف جانے کی آواز سنائی دی ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی سیڑھیوں سے نیچے آیا اور پھر واپس اوپر چلا گیا ہو ایسا دو تین بار ہوا ۔ میں واشروم سے باہر آیا تو پھر سے لوگوں کے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں اب میں تھوڑا سا گھبرا گیا کیونکہ اس وقت پورے گھر میں سناٹا تھا اور ایسے میں ان کے ہنسنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں میں نے سوچا کیوں نہ میں ایک بار اوپر جا کر دیکھ ہی لوں یہ سوچتے ہوئے میں اوپر جانے لگا اور وہ آوازیں اور زیادہ صاف سنائی دینے لگی لیکن یہ ایسے لوگوں کی آوازیں تھیں جو پہلے میں نے گھر میں نہیں سنی تھیں میں آہستہ آہستہ سے اوپر گیا اور جیسے ہی میں اوپر پہنچا تو میں حیران رہ گیا کیونکہ اوپر صرف نایاب تھی اور وہ زمین پر بیٹھ کر کسی سے باتیں کر رہی تھی لیکن وہ کن سے باتیں کر رہی تھی وہ نظر نہیں آرہے تھے پر ان کی آوازیں آرہی تھیں ۔ یہ سب دیکھ کر میں تھوڑا پریشان ہو گیا اور میں دیوار کی آڑ لیکر چھپ گیا لیکن وہ باتیں کرتے کرتے ہنس رہے تھے نایاب کسی سے کہہ رہی تھی میں تو ایک دو شکار کر کے ہی جاؤں گی یہاں سے۔ اتنے ایک مرد کی آواز آئی وہ کہہ رہا تھا آج ایک شکار تو بچ گیا میرے ہاتھ سے اگر اس کا بھائی نہ آتا تو میں اس کی گردن ہی مڑوڑ دیتا ۔ میں یہ سب چھپ کر سن اور میں سمجھ گیا تھا کہ وہ میرے بارے میں ہی بات کر رہا ہے کیونکہ کہ جب نایاب شیطانی حالت میں دروازے پر کھڑی تھی تو واجد اوپر آگیا تھا جسکی وجہ سے نایاب بیہوش ہو کر گر گئی تھی۔ اتنے میں وہ مرد پھر سے بولا اگر اس بار وہ میرے سامنے آیا تو میں اس کو نہیں چھوڑنے والا۔ یہ سنتے ہی نایاب ہنس پڑی اور ہنستے ہوئے بولی مجھے پتا ہے تم کس کی بات کر رہے ہو اس کا دیمی ہے وہی مجھے شک کی نظر سے دیکھتا رہتا ہے لیکن دیمی سے پہلے مجھے اس کے دوست کا شکار کرنا ہے جب میں ان کے ساتھ گئی تھی تو سارے راستے میں وہ شیشے سے گھور رہا تھا مجھے ایسا لگتا ہے وہ مجھے پسند کرنے لگا ہے کیونکہ جب میں پارک میں بیٹھی ہوئی تھی تب بھی وہ میرے پاس آکر بیٹھا ہوا تھا اور مجھے بول رہا تھا کہ وہ مجھے پسند کرتا ہے ۔نایاب کی یہ بات سنتے ہی اسی مرد کی آواز آئی اس نے غصے سے نایاب کو کہا نہیں تم میری ہو اور تم اب اس کے سامنے نہیں جاؤ گی اس کو تو میں ہی مار دونگا ۔ نایاب پھر ہنستے ہوئے کہا میں جانتی ہوں تم مجھے کسی کے ساتھ نہیں دیکھ سکتے پر اس کا شکار مجھے ہی کرنے دو ۔ میں نے جب نایاب اور ان شیطانی چیزوں کی یہ باتیں سنی تو میں ڈر گیا اور میں نایاب کی طرف دیکھتے ہوئے آرام سے پیچھے ہٹ کر وہاں سے واپس نیچے جانے لگا تو اچانک میرا پاؤں ایک سیڑھی سے سلپ ہو کر اس سے نیچے والی سیڑھی پر پڑ گیا اور میرے قدم کی آواز گونج اٹھی اور میں ہاتھوں کے بل سیڑھیوں پر گر گیا اسی وقت ایک خوفناک سی آواز آئی جسے سنتے ہی میں جلدی سے اٹھ کر نیچے کی طرف بھاگا اور بھاگتے ہوئے جب میں نے پیچھے دیکھا تو نایاب خوفناک سی شکل میں میرے پیچھے آرہی تھی میں دوڈتا ہوا اپنے کمرے میں گیا اور جلدی سے دروازہ بند کر کے دروازے سے کمر لگا کر وہیں زمین پر بیٹھ گیا اس وقت میرا پورا جسم ڈر سے کانپ رہا تھا اور میرے رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے کیونکہ کے دروازے کے پیچھے نایاب کی ہنسی کو میں صاف صاف سن رہا تھا میں نے جلدی سے جو جو میرے منہ سے کلمات نکلتے گئے وہ میں پڑھنے لگا اور صبح فجر کی اذان کے وقت تک اسی جگہ بیٹھا رہا وہ رات مجھ کو آج بھی نہیں بھولتی میں نے پوری رات جاگ کر گزاری اس دوران میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ میرا کون سا دوست ہے جو نایاب کی طرف دیکھ رہا تھا پھر میں نے دوبارہ سے نایاب کی بات پر سوچا کہ وہ شیشے میں سے دیکھ رہا تھا یہ سوچتے ہی اچانک میرا خیال ایس ڈی کی طرف گیا کیونکہ ایک وہی گاڑی میں تھا ہمارے ساتھ کیونکہ واجد ماجد اور نایاب گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور میں آگے ایس ڈی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور ایس ڈی گاڑی چلاتے ہوئے اپنے سامنے اوپر کی طرف لگے شیشے میں بار بار دیکھ رہا تھا پھر مجھے یہ بھی یاد آگیا کہ جب ہم سب دوست نہا رہے تھے تو اس وقت ایس ڈی کچھ دیر کے لیئے کہیں غائب بھی ہوا تھا اس کا مطلب وہ نایاب کے پاس گیا تھا ۔ اس خیال کے بعد اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایس ڈی کو ایسا کرنے پر کھری کھری سنا دوں یا اس کو یہ بتاوں کے وہ جسے پسند کرنے لگا ہے وہ ایک انسان نہیں بلکہ شیطانی چیز ہے ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ فجر کی اذان کی آواز آئی اور میں اذان کو غور سے سننے لگا اور جب اذان ختم ہوئی تو اس کے کچھ دیر بعد مجھے صحن میں کچھ چہل پہل کی آواز سنائی دی میں نے آہستہ سے کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر دیکھا تو قاسم بھائی اور بھابی وضو کر رہے تھے اور امی جائے نماز بچھا رہیں تھیں یہ دیکھتے ہی میں نے جلدی سے دروازہ کھولا اور ان کے پاس جا کر وضو کرنے لگا قاسم بھائی نے کہا واہ بھئی آج تو کمال ہی ہو گیا آج تو دیمی صاحب بھی فجر کے لیئے اٹھے ہیں ماشاءاللہ ماشاءاللہ ۔ میں نے وضو کیا نماز پڑھی اور کمرے میں چلا گیا پھر کچھ دیر میں مجھے نیند آگئی اور میں سو گیا پھر جب میں صبح جاگا تو میں نے دیکھا کہ سب ناشتہ کرنے کے لیئے بیٹھے ہوئے تھے پر نایاب نہیں تھی میں نے واجد سے پوچھا نایاب کہاں ہے اس نے کہا وہ تو ابھی تک سو رہی ہے پھر میں نے ناشتہ کیا اور گھر سے باہر جا کر پہلے میں نے ایس ڈی کو فون کیا اور کہا جلدی سے میری طرف آ مجھے تجھ سے بہت ضروری کام ہے ۔ ایس ڈی نے کہا ٹھیک ہے میں آتا ہوں اور کچھ ہی دیر میں ایس ڈی میرے پاس آگیا اسے دیکھتے ہی میں نے کہا ۔ تو نے جو کیا اس پر میں بعد میں بات کروں گا لیکن میں تجھے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب تک نایاب یہاں ہے تب تک تو میرے گھر کے آس پاس بھی نظر نہیں آنا ۔ میری یہ بات سنتے ہی ایس ڈی نے حیرانی سے پوچھا کیوں کیا ہوا ولف۔۔ ؟؟ میں نے کہا کچھ نہیں ہوا پر تو اب مجھے اِدھر نظر نہ آئیں۔۔ ایس ڈی نے کہا مجھے معاف کر دے بھائی اب میں سمجھ رہا ہوں کہ تو مجھے یہ سب کیوں کہہ رہا ہے کیونکہ کہ تجھے لگتا ہے کہ میرا نایاب سے کوئی چکر ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہے میں اس کو پسند ضرور کرنے لگا تھا پر بعد میں مجھے بہت برا لگا تھا کہ یہ تو اپنے ولف کی کزن ہے اور میں یہ گھٹیا حرکت کر رہا ہوں اس وجہ سے مجھے خود پر بہت غصہ آرہا تھا لیکن بھائی مجھے یہ تو بتا تجھے اس بات کا کیسے پتا چلا اور تجھ سے یہ سب کس نے کہا ؟؟ ایس ڈی کی یہ بات سن کر میں نے کہا یہ سب چھوڑ بس جو کہا ہے وہ کر باقی اس بارے میں ہم بعد میں بات کریں گے ۔ ایس ڈی نے کہا ٹھیک ہے بھائی پر میرے بارے میں اپنا ذہن صاف کر لینا اب میرے دل میں نایاب کے لیئے ایسا ویسا کچھ نہیں ہے مجھ سے غلطی ضرور ہوئی تھی اور اس پر میں بہت شرمندہ ہوں اگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا ۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور ایس ڈی کے جانے کے بعد جب میں گھر کی طرف پلٹ رہا تھا تو میری نظر اپنی چھت کی بالکنی پر پڑی تو نایاب وہاں سے غصے بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس نے میری اور ایس ڈی کے درمیان ہوئی سب باتیں سن لی ہوں ۔ ابھی میں نایاب کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ اتنے میں نایاب نے نہ میں سر ہلایا اور واپس چلے گئی اور میں بھی اندر چلا گیا اس کے بعد میں کالج چلا گیا اور جب میں کالج سے واپس آرہا تھا تو مجھے میرے دوست مانی (عمران) کی کال آئی وہ کال پر ہیلو کہنے کے بعد بہت بری طرح سے رونے لگا میں چونک گیا اور میں نے اس سے کہا اوئے تو رو کیوں رہا ہے؟؟؟ کیا ہوا ہے جلدی بول جلدی کیا ہوا ؟ اس نے کہا دیمی اور پھر سے رونے لگا میں نے کہا یار جلدی بتا کیا ہوا ہے؟؟ میرا دل ڈوب رہا ہے جلدی بتا کیا ہوا ؟ تو مانی نے روتے ہوئے کہا ایس ڈی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر سے رونے لگا۔ میں نے کہا کیا ہوا ایس ڈی کو بتا جلدی سالے۔۔۔۔ ایس ڈی کو کیا ہوا ہے ؟؟؟ اس نے کہا ایس ڈی کا بہت ہی برا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور وہ ہسپتال میں پڑا ہے ڈاکٹر بول رہے ہیں کہ اس کا بچنا مشکل ہے۔ مانی کی یہ بات سنتے ہی مجھے یک دم چکر سا آگیا اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا اسی وقت میں نیچے بیٹھ گیا تھوڑی دیر کے بعد میں نے مانی کو فون کیا اور اس سے ہسپتال کا پوچھ کر ایس ڈی کے پاس چلا گیا وہاں اس کے والدین بہت رو رہے تھے پھر جب میں ایس ڈی کے پاپا کے پاس گیا تو وہ میرے گلے لگ کر زور زور سے رونے لگے ان کو اس طرح روتے دیکھ کر میں بھی رو پڑا اتنے ہمارے باقی دوست بھی ہسپتال میں آگئے کچھ دیر رونے کے بعد میں نے مانی سے پوچھا یہ سب ہوا کیسے مانی نے کہا ایس ڈی کی آج ریس تھی تو ایس ڈی گاڑی چلا رہا تھا میں اور سنی ہم بائیک پر اس کے ساتھ ریس پر جا رہے تھے سڑک بالکل خالی تھی کہ اچانک ایس ڈی نے ہمیں کہا ارے یہ کہاں سے آگئی ہے ہم پوچھتے رہے کون آگئی پر وہ بار بار اپنے ساتھ والی سیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے یہی کہہ رہا تھا کہ ارے یہ کہاں سے آگئی جبکہ ہمیں اس وقت گاڑی میں ایس ڈی کے سوا کوئی نظر نہیں آرہا تھا ابھی ہم یہ دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک ایس ڈی نے گاڑی کی سپیڈ تیز کر لی اور ہم سے کافی دور نکل گیا اور ابھی ہم اس کے پیچھے ہی جا رہے تھے کہ ایس ڈی کی گاڑی اک دم سے گھوم کر الٹ گئی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی سڑک سے اتر کر خالی پلاٹ میں جا گری ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ایس ڈی نے اچانک گاڑی کی ہینڈ بریک کھینچ دی ہے اسی وجہ سے گاڑی تیز رفتاری کی وجہ سے بے قابو ہو کر الٹ گئی اور اسی وقت ہم نے جلدی سے جاکر ایس ڈی کو گاڑی سے نکالنے کی کوشش کی پر گاڑی پوری طرح سے پچک گئی تھی پھر ہم نے ریسکیو والوں کو بلایا تو انہوں نے بہت مشکل سے گاڑی کو کاٹ کر ایس ڈی کو نکالا اور یہاں ہسپتال لے آئے ۔ میں نے جب مانی کی یہ باتیں سنی تو مجھے پتا چل گیا کہ یہ ضرور اس شیطانی چیز کا کام ہے جو نایاب کے اندر ہے ۔ اتنے میں ڈاکٹر صاحب نے آپریشن تھیٹر سے باہر آکر کہا یہ ایکسیڈنٹ والے بجے کے ساتھ کون ہے ؟؟ ایس ڈی کے والد نے کہا جی ڈاکٹر صاحب میں اس کا والد ہوں ڈاکٹر نے کہا ہمیں معاف کر دیں ہم آپ کے بچے کو نہیں پچا سکے ڈاکٹر کی یہ بات سننے کے بعد تو جیسے پورا ہسپتال رونے لگا ہم سب دوست ایس ڈی کے ماما پاپا اور اس کی دو سسٹرز زاروقطار رونے لگے اور روتے ہوئے ہی اچانک میں اٹھا اور بائیک سٹارٹ کر کے روتا ہوا ہی غصے میں گھر پہنچا سب میری طرف دیکھ کر حیرت پوچھنے لگے کیا ہوا ہے۔۔۔ میں نے کسی کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور میں سیدھا نایاب کے پاس گیا وہ مجھے دیکھ کر ہنسنے لگی میں نے جاتے ہی اس کے منہ پر تھپڑوں اور مکوں کی بارش کر دی پر وہ پاگلوں کی طرح ہنستی رہی اس دوران اس کے منہ اور ناک سے خون جاری ہونے لگا۔ اتنے میں گھر کے باقی لوگ بھی اوپر آگئے اور انہوں نے دوڑ کر مجھے پکڑ لیا واجد اور ماجد نے بھی مجھے پکڑ لیا اتنے میں قاسم بھائی نے کہا کیا ہو کیا گیا ہے پاگل ہو گیا ہے کیا ؟؟؟ میں غصے میں اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کرتا رہا جبکہ قاسم بھائی نے میرے منہ پر تین چار تھپڑ بھی لگائے پر میرا دل کر رہا تھا کہ آج میں نایاب کو مار دوں میں نے بہت بار کوشش کر پر کافی لوگوں نے مجھے پکڑے رکھا اتنے میں قاسم بھائی نے کہا دیمی میں کہتا ہوں بتاؤ مجھے۔۔۔۔ یہ سب کیا ہے۔۔۔؟؟ تم اس بچی کی جان کے دشمن کیوں بن گئے ہو۔۔۔۔ یہ تو بہن ہے تمہاری۔۔۔ ؟؟ میں نے غصے سے کہا نہیں ہے یہ میری بہن یہ ڈائین ہے اس نے میرے دوست کی جان لے لی۔۔۔۔ آج اس نے اس کو مار دیا ۔ یہ سنتے ہی قاسم بھائی اور سب میری طرف حیرت سے دیکھنے لگے اور قاسم بھائی نے کہا یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔۔؟؟ کون مر گیا ہے؟؟ یہ تم کس دوست کی بات کر رہے ہو۔۔؟؟ میں نے روتے ہوئے کہا بھائی ایس ڈی۔۔۔۔ آج اس دنیا سے چلا گیا اور یہ سب اس چڑیل کی وجہ سے ہوا ۔ قاسم بھائی نے مجھے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر جنجھوڑا اور مجھ سے کہا ہوش میں آؤ تمہیں پتا بھی ہے کہ یہ سب تم کیا کہہ رہے ہو؟؟ ۔ میں نے کہا میں سہی کہہ رہا ہوں بھائی اس نے مارا ہے میرے دوست ایس ڈی کو۔۔ ابھی بھائی مجھ سے یہ پوچھ ہی رہے تھے کہ اچانک نایاب عجیب سی حرکتیں کرنے لگی اس نے پہلے اپنے چہرے سے نکلتا ہوا خون چاٹنا شروع کر دیا اور پھر اک دم سے غصے میں آگئی اور مرد کی آواز میں بولی ہاں اب بتا میں نے کیا ہے وہ سب۔۔تیرے دوست کو مار دیا ہے آج میں نے اور اب تیرے باقی دوستوں کی باری بھی قریب ہے۔ نایاب کی اس بات کو سب نے سنا اور کافی لوگ نایاب کے اس روپ کو دیکھ کر ڈر گئے ۔ پھر نایاب نے کہا اگر تم میں سے کوئی بھی میرے راستے میں آئے گا تو اس کا انجام بھی اس لڑکے جیسا ہو گا جو آج مر چکا ہے ۔ قاسم بھائی نے جب نایاب کی یہ سب باتیں سنی تو وہ بالکل ہی حیران و پریشاں ہو گئے کیونکہ نایاب پوری طرح سے مرد کی آواز میں بول رہی تھی اتنے میں اچانک نایاب کے پاؤں زمین سے اوپر کی طرف اٹھنے لگے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں کھڑی ہو گئی جیسے وہ ہوا میں اڑ رہی ہو ۔ یہ تماشا گھر کے سارے لوگوں نے دیکھا اور وہ فوراً نیچے کمرے میں بھاگ گئے جن میں میری امی میری بھابی نایاب کی امی ماجد شامل تھا اور اوپر قاسم بھائی عاصم بھائی واجد اور اس کے پاپا اور میں تھا نایاب بنا پاؤ کو اٹھائے سیڑھیوں کی طرف جانے لگی تو اس دوران واجد نے کو پکڑنے کی کوشش کی تو نایاب نے ایک زور دار دھکا واجد کو مارا اور وہ دیوار سے جا ٹکرایا اس کے بعد نایاب سب سے اوپر والی چھت پر چلی گئی اور پھر اچانک سے غائب ہو گئ ۔ قاسم بھائی نے نایاب کے ابو سے کہا انکل یہ سب کیا تھا آپ نے دیکھا نہ ؟؟ انکل نے قاسم بھائی سے کہا بیٹا مجھے معاف کر دو ہم سب نے تم لوگوں سے یہ بات چھپائی تھی کہ ہماری بیٹی پر شیطانی اثرات ہیں لیکن یہ سہی ہو گئی تھی پر اس بار جب ہم لاہور آئے ہیں تب سے اس کی حالت ایسی ہو گئی ہے۔ پھر آنکل نے قاسم بھائی کو نایاب کے بارے میں سب کچھ بتایا ۔ قاسم بھائی نے کہا انکل آپ اب فکر نہ کریں ہم نے بہت بار ایسی چیزوں سے نمٹا ہے اس سے بھی نمٹ لیں گے انشاء اللّٰہ پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے وہ گئی کہاں ہے واجد اٹھا اور چھت پر دیکھ کر واپس آیا اور بولا وہ اوپر نہیں ہے قاسم بھائی نے کہا کوئی بات نہیں میں آج ہی عالم صاحب کے پاس جاؤں گا اور وہی اس چیز کا خاتمہ کریں گے کیونکہ اللّٰہ نے ان کو بہت علم سے نوازا ہے ۔ انکل نے کہا پھر تو بیٹا تمہیں جلد ان کو لیکر آنا پڑے گا قاسم بھائی نے کہا جی آنکل میں ابھی جاتا ہوں۔ یہ کہہ کر بھائی عالم صاحب کی طرف چلے گئے اور میں نے واپس نیچے جا کر اپنے دوست مانی کو فون کیا اور اس سے کہا ایس ڈی کو دیکھنے آراہا ہوں مانی نے کہا نہیں تم گھر ہی رکو ہم سب بھی ایس ڈی کے گھر جانے لگے ہیں کیونکہ ہسپتال والوں نے ایس ڈی کی ڈیڈ باڈی اس کے گھر والوں کو دے دی ہے اور وہ بس اسے لے کر پہنچتے ہی ہونگے ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اس کے بعد میں ایس ڈی کے گھر چلا گیا وہاں ایمبولینس آچکی تھی اور تب میں نے آخری بار اپنے جگری دوست ایس ڈی کو دیکھتا اور پھر سے ایک کونے میں جا کر زاروقطار رونے لگا پھر کچھ دیر کے بعد ہم سب دوستوں ایس ڈی کے گھر والوں کے ساتھ مل کر ایس ڈی کے کفن دفن میں مصروف ہو گئے ایس ڈی کی دو بہنیں تھیں اور ایس ڈی ان دونوں بہنیوں کا اکیلا ہی بھائی تھا کیونکہ ایس ڈی ٹوٹل تین بہن بھائی تھے اس وجہ مجھے اس کی بہنوں کی طرف دیکھ کر اور زیادہ رو نا آرہا تھا اور نماز عصر کے بعد نماز جنازہ پڑھی اور ہم لوگ ایس ڈی کو دفنانے کے بعد واپس آگئے اس کے بعد میں تھوڑی دیر کے لیئے اپنے گھر آگیا اپنے کمرے میں جا کر اپنے دوست ایس ڈی کو یاد کر کے رونے لگا اتنے میں قاسم بھائی بھی آگئے انہوں نے مجھے دلاسہ دیا اور بولے عالم صاحب رات کو آجائیں گے اس وقت وہ کسی جگہ مصروف ہیں میں نے کہا ٹھیک ہے بھائی ۔ یہ کہہ کر قاسم بھائی اپنے کمرے میں چلے گئے اور میں کچھ دیر کے لیئے سو گیا پھر میں رات میں اٹھا تو میں نے بھابی سے بھائی کا پوچھا تو انہوں نے کہا وہ عالم صاحب کی طرف گئے پھر اوپر کے کمرے کی طرف جانے لگا تو مجھے اچانک لگا کہ کوئی کچھ کھا رہا ہے کیونکہ مجھے کچے گوشت کی خوشبو آرہی تھی میں نے جب کمرے جا کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا اتنے میں ایک بار پھر میرے پیچھے سے کسی کے ہونے کا احساس ہونے لگا اور جیسے ہی میں نے اپنی گردن اس طرف گھما کر دیکھا تو وہ نایاب تھی جو کہ بہت ہی خوفناک اور بھیانک شکل میں تھی اور وہ دو تین آوازوں میں خوفناک انداز سے ہنس رہی تھی ابھی میں اس کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک اس نے میرے منہ پر تھپڑ مارا اور میں اس سے تھوڑا دور جا کر گرا اس کے بعد وہ اپنے الٹے پاؤں سے چلتی ہوئی میری طرف آئی اور اس نے مجھے پھر سے اٹھا کر دیوار میں مارا جس سے میرا سر پھٹ گیا اور سر سے خون بہنے لگا اور نایاب مرد کی آواز میں بولی کہ اب کیسا لگ رہا ہے میرا خون بہایا تھا نا تو نے۔۔۔۔ یہ کہتے ہو وہ پھر سے ہنسنے لگی اس دوران میں اس پر ہاتھ بھی نہیں اٹھا پا رہا تھا کیونکہ اس کی طاقت بہت بڑ گئی تھی اتنے میں وہ پھر سے میرے قریب آگئی اور اس نے میرا گلہ پکڑ لیا میں نے بہت چھڑانے کی کوشش کی پر اس نے نہیں چھوڑا اور دبانے لگی اتنے میں اچانک اس نے میرا گلا چھوڑ دیا اور میں زمین پر گر گیا اس دوران وہ بری طرح چیخنے لگی اور جیسے ہی میری نظر اس پر پڑی تو عالم صاحب نے اس کو بالوں سے پکڑا ہوا تھا اور وہ اس پر کچھ پڑھ کر پھونک رہے تھے ایسا انہوں نے سات بار کیا اور جیب سے ایک چھوٹی سی بوتل نکالی اس کا پانی زبردستی نایاب کے منہ ڈال دیا اس کے بعد نایاب کی چیخوں سے پورا گھر گونج رہا تھا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ بیہوش ہو گئی اور زمین پر گر پڑی اس دوران بھی عالم صاحب اس پر پڑھ کر پھونکتے رہے پھر عالم صاحب نے جیب سے ایک تعویذ نکال کر نایاب کے گلے میں ڈال دیا اور کہا کہ اس تعویذ کو ایک ماہ تک نایاب کے گلے میں ڈالے رکھنا اس کے بعد اس کو اتار کر نہر میں بہا دینا انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ نایاب کے ابو نے عالم صاحب سے پوچھا عالم صاحب یہ چیزیں تو بہت پرانی تھی پر یہ ایسے کیسے چلی گئیں عالم صاحب نے کہا یہ چیزیں پرانی ضرور تھیں پر ان کی طاقت بہت کم تھی اس وجہ سے وہ تین لوگ ہو کر بھی میرا مقابلہ نہیں کر سکے اور مجھے یہ طاقت میرے اللّٰہ کے کلام نے دی ہے اس لیئے جہاں تک ہو سکے آپ لوگ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی قرآن پاک پڑھنے کی اور اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ بچی بہت پہلے ہی بہتر ہو سکتی تھی اگر آپ لوگوں نے اس کو نماز کی عادت ڈالی ہوتی ۔ خیر دیر آئے درست آئے اب سے ہی نماز اور قرآن پاک پڑھنے کی عادت ڈال لو ورنہ شیطان ہمیشہ ہماری تمہاری بغل میں ہی رہتا ہے جو ہر وقت اس کو گناہ کی طرف لیجانے کے لیئے کوششیں کرتا رہتا ہے اللّٰہ تعالیٰ آپ کو اور ہم سب کو نماز اور قرآن پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین الرحمن الرحمن۔۔۔ یہ کہہ کر عالم صاحب چلے گئے
اس کے بعد نایاب پوری طرح سے زندگی کی طرف واپس آچکی تھی اور نمازی اور پرہیزگار ہوچکی تھی پھر چار سال بعد اس کی شادی ہو گئی
واقع ختم
دوستو واقع پسند آئے تو کومنٹس کر کے بتایئے گا
اور ہاں بار بار یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ یہ واقع سچ ہے کہ جھوٹ بس آپ کا دماغ ہے آپ جیسا چاہیں سمجھ لیں لیکن یہ ایک ناقابل یقین سچ تھا
اللّٰہ تعالیٰ آپ سب کو اور آپ کے تمام گھر والوں کو ہمیشہ خوش رکھے آمین
No comments:
Post a Comment