انجانی عورت کی انجان حویلی
یہ واقع ہے عاشقہ آباد کے علاقے کا جہاں ایک خرم نامی شخص کسی ترخان کی دکان پر کام کرتا تھا خرم ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اس کی ماں بچپن میں ہی فوت ہو چکی تھی اور خرم کا والد کے سوا کوئی نہیں تھا نہ بہن نا کوئی بھائی اور خرم کا والد کسی کے گھر نوکر تھا اور اسی طرح اس نے خرم کی پرورش کی لیکن وہ خرم کو پڑھا لکھا نہ سکا اور خرم اسی طرح کھیل خود میں ہی جوان ہو گیا پھر جب خرم اٹھارہ سال کا ہو گیا تو ایک دن اس کے والد نے خرم سے کہا دیکھو بیٹا میں اب بوڑھا ہو رہا ہوں اور میری زندگی کا اب کوئی پتا نہیں کب میری آنکھیں بند ہو جائیں اور میں تمہیں پڑھا لکھا نہیں سکا اس بات کا مجھے بے حد افسوس ہے لیکن تمہارے پاس اب بھی بہت وقت ہے اس وجہ سے تمہیں کو کام سیکھ لینا چاہیے تاکہ تم میری طرح کسی کی غلامی نہ کرنی پڑے ۔ خرم نے کہا پر بابا مجھے کیا کام سیکھنا ہوگا ؟؟ اس علاقے میں کوئی اچھا سا کام ملنا بہت مشکل ہے اور مجھے کوئی ایسا کام چاہیئے جو کہ میں جلدی ہی سیکھ جاؤں ۔ خرم کے والد نے کہا میرا ایک دوست ہے جو کہ لکڑی کا سامان بنانے کا کام کرتا ہے اور وہ میری بہت عزت کرتا ہے تم میرے ساتھ چلنا میں تمہیں اس سے ملا دونگا اور مجھے یقین ہے وہ تمہیں جلد ہی کام سکھا دے گا اور وہ ایسا کام ہے جو تم جلدی ہی سیکھ جاؤ گے خرم نے کہا ٹھیک ہے بابا ۔ اگلے دن خرم اور اس کا والد مشتاق نامی ایک بہت مشہور ترخان کے پاس گئے جو کہ لکڑی کے فرنیچر وغیرہ بنایا کرتا تھا خرم کے والد نے مشتاق کو کہا مشتاق بھائی یہ میرا بیٹا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کو اپنا شاگرد بنا لو اور اس کو یہ لکڑی کا کام سکھا دو تاکہ یہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے ۔ مشتاق نے کہا بھائی آپ اسے کوئی اچھی نوکری پر کیوں نہیں لگوا دیتے ؟؟ خرم کے والد نے کہا مشتاق بھائی آپ کو تو پتا ہے میں جتنا کماتا وہ سب گھر کے دال دلیئے میں لگ جاتا ہے اس وجہ سے میں اس کو پڑھا لکھا نہیں سکا اس وجہ سے اس کو کوئی اچھی نوکری نہیں مل سکتی اور میں نہیں چاہتا یہ میری طرح کسی کے گھر غلام بن کر رہے اس لیئے میں اسے آپ کے پاس لایا ہوں کہ آپ اس کو ہنر سکھا دیں تاکہ اس کی زندگی بن جائے ۔ مشتاق نے کہا بھائی آپ فکر نہ کرو اب یہ میرا بیٹا ہے اور میں جلد از جلد اس کو کام سکھانے کی کوشش کرونگا اس کے بعد خرم کا والد اس خرم کو مشتاق کے پاس چھوڑ کر اپنے کام پر چلا گیا اور آہستہ آہستہ سے دن گزرتے رہے اور خرم کام سیکھتا رہا اور چار سال میں خرم ایک بہت عمدہ ترخان بن گیا یہ دیکھ کر مشتاق اور خرم کا والد بہت خوش ہو رہے تھے اب خرم خود ہی پورا فرنیچر تیار کرنے لگ گیا تھا اس کے ساتھ ساتھ خرم مشتاق کی بھی بہت خدمت کرتا تھا جب بھی کبھی مشتاق تھک جایا کرتا تو خرم کبھی مشتاق کا سر دباتا اور اس کی ٹانگوں کو دباتا اور مشتاق خوش ہو کر اس کو بہت سی دعائیں دیتا اور اس کو اس کی اجرت کے پیسے بھی زیادہ دے دیتا کچھ وقت ایسے ہی چلتا رہا اور مشتاق نے اپنا سارا کاروبار خرم کے حوالے کر دیا اور خود زیادہ تر گھر پر ہی رہا کرتا تھا پھر ایک دن خرم کو ایک شخص نے فرنیچر بنانے کا آرڈر دیا اور کہا کہ آرڈر جلد سے جلد مکمل ہو جانا چاہیے کیونکہ یہ سارا سامان کسی کی شادی میں جانا ہے اور شادی میں بہت کم وقت رہ گیا ہے خرم نے کچھ دیر سوچا اور کہا ٹھیک ہے میں سارا فرنیچر شادی کے وقت سے پہلے بنا کر دے دونگا لیکن اس کے پیسے تھوڑے زیادہ لوں گا ۔ وہ شخص مان گیا اور خرم نے وقت ضائع کیئے بغیر کام شروع کر دیا ۔ خرم اکثر رات دیر تک کام کرنے لگا اور دکان پر ہی سو جاتا پھر صبح جلدی اٹھ کر پھر سے کام کرنے لگ جاتا تاکہ آرڈر جلد مکمل ہو جائے اسی طرح خرم نے نہ دن دیکھا اور نہ رات بس کام میں مصروف رہنے لگا اور اس دوران خرم کا والد خرم سے ملنے آیا کرتا تھا لیکن خرم کو کام میں مصروف دیکھ کر واپس چلا جاتا تھا اور پھر کچھ ہی دن میں تقریبا سارا فرنیچر تیار کر لیا اور تھک کر چور ہو گیا اب سامان پوری طرح سے تیار تھا اور کافی رات ہو چکی تھی اور خرم نے سوچا اب مجھے گھر ہی جانا چاہئے کیونکہ بڑے دن سے میں بابا کو وقت نہیں دے پایا یہی سوچتے ہوئے خرم نے دکان بند کی اور اپنے گھر کی طرف جانے لگا۔ اس علاقے کا راستہ بہت ہی خراب اور خطرناک تھا کیونکہ ایک تو ٹوٹی پھوٹی سڑک تھی اور اس کے اطراف میں بڑے بڑے گڑھے ہ جھاڑیاں اور جنگل نما درخت تھے اور لائٹیں بہت ہی کم ہونے کی وجہ سے رات میں اکثر لوگوں کو تنگی ہوتی تھی کئی بار تو کچھ لوگوں نے اس راستے پر کسی عورت کو جس کا سر پھٹا ہوا تھا اس کو پھرتے ہوئے دیکھنے کا دعویٰ کیا تھا اور کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ان جھاڑیوں میں کوئی بنا سر کے کوئی عورت نظر آتی ہے اور ان سب باتوں سے بے فکر خرم آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک سے اس کو اپنے پیچھے پیچھے کسی کے چلنے کی آواز سنائی دی اس نے فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا پر پیچھے کوئی نظر نہیں آرہا تھا خرم نے سوچا شاید یہ میرا وہم ہے اور وہ پھر سے اپنی منزل کی طرف چلنے لگا تھوڑی دیر کے بعد پھر سے خرم کو محسوس ہوا کہ کوئی اس کے پیچھے چل رہا ہے تو خرم فوراً رک گیا اس نے آرام سے منہ پیچھے کی طرف گھمایا تو دیکھا کہ اس کے پیچھے ایک شادی کے لباس میں ملبوس ایک بہت ہی خوبصورت سی عورت چل رہی تھی جو کے خرم سے کچھ قدم ہی پیچھے تھی اور وہ بھی خرم کی طرح اسی جگہ پر رک گئی تھی خرم حیرت سے اس کو دیکھ رہا تھا اور وہ بھی ڈری ہوئی خرم کو دیکھ رہی تھی اس کے گالوں پر آنسوؤں کے نشان جو تھوڑی سی روشنی پڑنے پر چمک رہے تھے خرم نے پوچھا محترمہ آپ کون ہیں اور اتنی رات گئے کہاں سے آئی ہیں اور آپ کو کہاں جانا ہے ؟ وہ عورت روتے ہوئے بولی میرا نام کرن ہے اور میں پاس ہی میں ایک حویلی میں رہتی ہوں اور آج میری شادی تھی لیکن جس شخص سے میری شادی ہونی تھی وہ شخص حویلی نہیں نہیں پہنچ سکا پھر کسی نے بتایا کہ اس شخص کا ایکسیڈنٹ اسی سڑک پر کہیں ہوا ہے اسی لیئے میں جلدی میں اس کو ڈھونڈنے نکلی ہوں کہ شاید وہ مجھے کہیں نظر آجائے ۔ خرم نے کہا تو کیا تمہارے ساتھ اور کوئی نہیں آیا اس کو ڈھونڈنے کیونکہ یہ سارا راستہ ویران ہے اور ایسے میں تم اکیلی اس راستے پر اسے ڈھونڈنے نکلی ہو ؟؟ اس عورت نے کہا میرا کوئی نہیں ہے بس ایک بڑی بہن ہے جو کہ حویلی میں ہے اسی نے میری شادی طے کرائی تھی ابھی میں دلہن بن کر بیٹھی ہی تھی کہ کسی نے آکر اطلاع دی کہ میرے ہونے والے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اس وجہ سے میں ہوش کھو بیٹھی اور گھر سے باہر نکل پڑی میری بہن مجھے روکتی رہی اس وقت اکیلے باہر جانے سے پر میں پھر بھی آگئ ہوں ۔ خرم نے کہا اچھا چلو تمہارے ہونے والے شوہر کو ڈھونڈتے ہیں اس عورت نے کہا ٹھیک ہے پر تم آگے ہی چلو گے کیونکہ مجھے تم سے بھی ڈر لگ رہا ہے کہیں تم میرے ساتھ کچھ برا نہ کردو اس وجہ سے تمہیں آگے ہی چلنا ہو گا۔ خرم نے کہا اچھا چلو ٹھیک ہے میں آگے ہی چلتا ہوں خرم یہ کہہ کر اس عورت سے کچھ قدم آگے آگے چلنے لگا اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اس عورت سے سوال جواب کرتا رہا اس عورت نے خرم کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا بس اس کے پیچھے پیچھے چپ چاپ چلتی رہی اور خرم باتیں کرتا ہوا بنا پیچھے دیکھے آگے آگے چل رہا تھا اور پھر اتنے میں خرم نے کہا دیکھیں آپ مجھ سے ڈریں مت میں ایسا ویسا بندا نہیں ہوں جیسا آپ میرے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ یہ کہہ کر جب خرم نے اپنے پیچھے اس عورت کی طرف دیکھا تو پیچھے کوئی نہیں تھا اور وہ عورت جیسے بہت دیر پہلے کی کہیں غائب ہو چکی تھی اور خرم خود سے باتیں کرتے ہوئے جارہا تھا یہ دیکھ کر خرم ادھر اُدھر دیکھنے لگا اور تھوڑا گھبرا گیا اور تیزی سے اپنے گھر کی طرف بڑھنے لگا اور سوچتا رہا کہ آخر وہ کہاں چلے گئی ۔ یہ سوچتا ہوا خرم اپنے گھر پہنچ گیا اس رات خرم سو نہیں پایا وہ پوری رات اسی کے بارے میں سوچتا رہا اور اتنے میں فجر کی اذان کی آواز سنائی دی اس کے بعد خرم نے نماز پڑھی اور واپس بستر پر جا کر سو گیا اگلے دن خرم اپنے بابا سے مل کر دکان پر چلا گیا وہاں جا کر خرم نے آرڈر کا سامان اس شخص کے حوالے کیا اور خود اسی عورت کے بارے میں بیٹھ کر سوچنے لگ گیا اتنے میں مشتاق آیا اور خرم کو سلام کیا لیکن خرم نے کوئی بھی جواب نہ دیا اور کہیں کھویا رہا مشتاق نے پاس جا کر اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا تو خرم اچانک سے چونک گیا مشتاق نے کہا بیٹا سب خیریت تو ہے کہاں کھوئے ہوئے ہو خرم نے کہا استاد جی مجھے معاف کر دو میں نے آپ کو دیکھا نہیں تھا مشتاق نے کہا نہیں نہیں بیٹا کوئی بات نہیں پر مجھے تم کچھ پریشان سے لگ رہے ہو۔ آخر بات کیا ہے ؟ خرم نے کہا دراصل استاد جی گزشتہ رات جب میں اپنے گھر جا رہا تھا تو ایک بہت ہی حسین عورت مجھے راستے میں ملی تھی میں بس اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ مشتاق نے کہا اچھا تو بات عشق و محبت کی لگ رہی ہے ۔ خرم جلدی سے بولا نہیں نہیں استاد جی ایسا ویسا کچھ نہیں ہے میں تو بس ایسے ہی اس کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ مشتاق نے کہا دیکھو بیٹا اب تم جوان ہو گئے ہو اور مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اب تمہاری شادی کے بارے میں سوچنا چاہیے اور ویسے بھی اب تم اس قابل ہو چکے ہو کہ اپنی گھر گھرستی سمبھال سکو میں آج ہی اس بارے میں تمہارے بابا سے بات کروں گا ۔ خرم سر جھکا کر مسکرانے لگا اس کے بعد خرم نے آرڈر کی رقم مشتاق کو دیتے ہوئے کہا استاد جی یہ لیں میں نے اپنا آرڈر وقت پہ تیار کر لیا تھا اس وجہ سے گاہک نے مجھے کچھ پیسے زیادہ دیئے ہیں آپ اس میں سے وہ پیسے مجھے دے دیں اور باقی کے پیسے آپ رکھ لیجئے ۔ مشتاق نے کہا ارے نہیں بیٹا یہ سب پیسے تمہاری کی محنت کے ہیں میں یہ پیسے نہیں لے سکتا مجھے پتا ہے کس طرح تم نے رات دن کام کر کے یہ پیسے کمائے ہیں خرم نے بولا لیکن استاد جی آپ اس میں سے کچھ تو لے لیں مشتاق نے کہا اچھا ایسا کرتے ہیں میں اس میں سے آدھے پیسے رکھ لیتا ہوں تاکہ تمہاری آنے والی بیوی کے لیئے کوئی سونے کا ہار تیار کروا کر رکھ دیتا ہوں کیونکہ اب میں تمہارے پر کسی چیز کا بوجھ نہیں ڈالوں گا اور تمہاری شادی کے تمام اخراجات میں خود ہی کروں گا اور ویسے بھی میری کوئی اولاد نہیں ہے اس وجہ سے میں تمہیں ہی اپنی اولاد سمجھتا ہوں۔تحریر دیمی ولف ۔ یہ سن کر خرم کی آنکھوں میں آنسوں آگئے اور وہ مشتاق کے گلے لگ کر رونے لگا مشتاق نے اس کو چپ کرایا اور کہا بس بس بیٹا اب رونا چھوڑو اور جلدی سے اپنی شادی کی تیاریاں شروع کر دو ۔ خرم روتے ہوئے مسکرانے لگا اور بولا استاد جی پہلے کو لڑکی تو مل جائے پھر مشتاق نے کہا ۔ ارے تم فکر کیوں کرتے ہو تم جیسے خوبصورت جوان اور ہنر مند لڑے کے لیئے تو لڑکیوں کی لائنیں لگ جائیں گی تم فکر کیوں کرتے ہو ۔ یہ کہہ کر مشتاق چلا گیا اور خرم بھی من ہی من مسکرانے لگا اور ایک ٹیبل پر لیٹ کر اپنی شادی خیالوں میں گم ہو گیا اتنے میں خرم کو نیند آگئی تبھی اس کو خواب میں وہی دلہن نظر آئی جو کہ جھاڑیوں کے پیچھے ایک بڑی سی حویلی کے باہر کھڑی تھی اور دلہن نے خرم سے کہا مجھے رات میں آکر لے جانا میں اسی جگہ کھڑی ہوں اتنے میں ایک خوفناک سی شکل والی کوئی لڑکی نے دلہن کی گردن کو اپنے دانتوں سے دبوچا اور خرم کی آنکھ کھل گئی خرم پوری طرح سے گھبرا گیا تھا اور اٹھ کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا پھر اپنے ماتھے پر ہاتھ مار کر بولا اوہ۔۔۔۔ یہ تو بس ایک خواب ہی تھا تبھی خرم نے خود سے کہا یہ تو خواب تھا لیکن ہو سکتا ہے اگر میں پھر سے وہاں جاؤں تو شاید وہ مجھے وہیں مل جائے ویسے وہ تھی بہت خوبصورت۔ یہ کہتے ہوئے خرم پھر سے بیٹھ کر اس دلہن کے بارے میں سوچنے لگا تبھی اس نے فیصلہ کیا کہ میں آج رات پھر اسی دلہن کو ڈھونڈنے جاؤں گا ہو سکتا ہے وہ مجھے مل ہی جائے یہ سوچنے کے بعد پھر خرم اپنے کام میں مصروف ہو گیا اور جب رات کا وقت ہوا تو خرم اس دلہن کی تلاش میں نکل پڑا لیکن اس کو دلہن کہیں نظر نہیں آئی اور وہ اداس ہو کر سر جھکائے گھر کی طرف جانے لگا اتنے میں پاس کی جھاڑیوں میں کوئی ہلچل ہوئی خرم چونک گیا اور جھاڑیوں کی طرف دیکھنے لگا پر کوئی نظر نہ آیا خرم نے سوچا ہو سکتا ہے کہ کوئی جانور جھاڑیوں سے گزر کر گیا ہو گا اس کے بعد خرم پھر سے گھر کی طرف چلنے لگا ابھی وہ کچھ ہی دور گیا تھا کہ اس کو پھر سے کسی کے اپنے پیچھے پیچھے چلنے کا احساس ہو خرم نے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا اور خرم کافی دیر تک پیچھے دیکھتا رہا لیکن دور دور تک کوئی نظر نہ آیا اور جیسے ہی خرم نے اپنا منہ واپس سامنے کی طرف کیا تو اچانک سے خرم ڈر گیا کیونکہ جس دلہن کو اپنے پیچھے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا وہ خرم کے سامنے کھڑی تھی پر اس کی حالت بہت عجیب سی لگ رہی تھی اس کے بال کھلے ہوئے تھے اس کی آنکھوں کا کاجل بکھرا ہوا تھا اور اس کا دوپٹہ زمین پر گرا ہوا تھا خرم نے اس سے کہا تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا اور یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے اس عورت نے روتے ہوئے کہا میرا شوہر مر گیا ہے جس کا کل ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور میں شادی سے پہلے ہی بیوا ہو گئی ہوں یہ کہہ کر وہ عورت زمین پر بیٹھ کر اپنے ہاتھوں سے اپنا سر کو پیٹنے لگی۔ تبھی خرم نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پکڑ لیئے اور کہا دیکھو اب تم رو نا بند کر دو ویسے بھی تمہارے رونے سے مرنے والا واپس نہیں آنے والا اور رہی بات بیوا کی تو ایک انسان کے مرجانے سے دنیا ختم تو نہیں ہوتی ابھی تم جوان اور بہت زیادہ خوبصورت ہو تمہیں تو ایک سے بڑھ کر ایک اچھا لڑکا مل جائے گا اب تم سب کچھ بھول کر زندگی میں آگے بڑھنا سیکھو اور تم دوبارہ شادی کر سکتی ہو ۔ یہ سن کر عورت نے اپنے آنسوؤں کو صاف کر لیا اور بولی میری شادی سے پہلے ہی میرا شوہر مر گیا اور اسی بات کو لے کر لوگ مجھے منہوس کہہ رہے ہیں اور تم کہتے ہو دوبارہ شادی کرلو تمہی بتاؤ کون کرے گا اک منہوس سے شادی ؟؟ خرم نے کہا پہلی بات تو یہ ہے کہ تمہارے ہونے والے شوہر کی موت کا وقت مقرر ہو چکا تھا اور اس وقت پہ وہ مر گیا اور اس میں تمہارے منہوس ہونے کا کوئی جواز نہیں اور دوسری بات یہ کہ اگر تم چاہو تو میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں کیونکہ گزشتہ رات جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو میں پہلی نظر میں ہی تمہیں بہت پسند کرنے لگا تھا لیکن میں یہ کہتے ہوئے جھجھک رہا تھا کہ کہیں تم کو برا نہ لگ جائے اور ویسے بھی تم اپنے شوہر کو ڈھونڈ رہی تھی تو ایسے میں میرا تم سے ایسی بات کرنے کا کوئی جواز ہی بنتا نہیں تھا لیکن تمہیں دیکھ کر میں نے یہ ضرور سوچا تھا کہ کاش میری بیوی بھی تم جیسی خوبصورت ہو ۔ اس عورت نے خرم کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا کیا تم واقعی میں مجھے بہت پسند کرتے ہو ؟؟ اور مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو ؟؟ خرم نے کہا ہاں لیکن اگر تم چاہو تو ۔ عورت نے کہا ہاں میں بھی تم سے شادی کرنا چاہوں گی کیونکہ تم بھی بہت خوبصورت، بھولے اور دل کے اچھے انسان ہو لیکن کیا تمہارے گھر والے مجھے قبول کر لیں گے ؟؟ ۔ خرم نے کہا میرے گھر میں صرف میرے بوڑھے بابا ہی ہیں اور ان کے سوا میرا کوئی نہیں ہے۔ ہاں ایک استاد جی بھی ہیں جن کی دکان پر میں کام کرتا ہوں وہ مجھے اپنا بیٹا سمجھتے ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ میرے بابا یاں میرے استاد جی آپ کی مجھ سے شادی پر کوئی اعتراز کریں گے ۔ اس عورت نے کہا ٹھیک ہے پھر لیکن شادی سے پہلے میں تمہیں ایک بات بتانا چاہتی ہوں وہ یہ کہ میرے والد اس علاقے کے بہت بہ اثر زمیندار تھے اور انہوں نے کسی غریب شخص پر ظلم کیا تھا اور اس غریب شخص نے میرے والد کو بدعا دی تھی کہ تیری بیٹیوں کا گھر بھی کبھی نہیں بسے گا اور اگر ان کی شادی ہو بھی گئی تو تیری بیٹیوں کے ہاں کبھی اولاد نہیں ہوگی اگر ہو گئی تو مر جائے گی بس اس دن سے نہ تو میری بڑی بہن کا گھر بسا نہ ہی میرا اور اگر میں تم سے شادی کر لوں اور اولاد نہ ہوئی تو تم کیا کرو گے تب ؟ خرم نے کہا دیکھو اولاد اگر میری قسمت میں ہوئی تو ضرور ہوگی اور میں نے کسی دل نہیں دکھایا اس وجہ سے مجھ پر کسی بدعا کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ اب تم یہ سب باتیں چھوڑو اور میرے ساتھ میرے گھر چلو میں تمہیں اپنے بابا سے ملواتا ہوں ۔ اس عورت نے کہا نہیں پہلے ہم حویلی چلیں گے اور میں اپنی بڑی بہن سے ملاؤں گی اس کے بعد ہم کل تمہارے بابا کے پاس چلیں گے ۔خرم نے کہا ٹھیک ہے۔ اس کے بعد عورت خرم کو لے کر جھاڑیوں کی طرف بڑھنے لگی کچھ دور جا کر خرم نے کہا یہ تم مجھے کہاں لے کر جارہی ہو یہ جگہ تو دور دور بہت ویران ہے مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔ عورت نے کہا تم آرام سے میرے ساتھ چلتے رہو تمہیں کسی چیز سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں میں عورت ہو کر یہاں اکیلی آگئی ہوں اور تم مرد ہو کر ڈر رہے ہو؟؟ ۔ خرم نے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں بس مجھے یہ راستہ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا ۔ عورت نے کہا اگر تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہے تو چپ چاپ چلتے رہو ۔ خرم نے اچھا اچھا میں چل رہا ہوں وہ عورت آگے آگے چل رہی تھی اور خرم اس کے پیچھے چل رہا تھا کافی دور جا کر اچانک سے بہت زیادہ اندھیرا ہو گیا اور اتنا کے خرم کو اپنا ہاتھ بھی نظر نہیں آرہا تھا اس نے کرن کے نام سے اس عورت کو آواز دی پر کوئی جواب نہیں آیا خرم نے پھر سے آواز دی کرن کہا ہو دیکھو مجھے ڈر لگ رہا ہےمم۔ تو اس عورت نے کہا آجاؤ ہم پہنچ گئے ہیں ۔ جب خرم اس جگہ پر پہنچا تو وہاں کوئی حویلی نہیں تھی بلکہ ایک ویران سا قبرستان تھا اور وہ عورت ایک قبر پر بیٹھی ہوئی تھی ۔ خرم نے حیرانی سے پوچھا کرن تم تو کہہ رہی تھی ہماری حویلی ہے پر مجھے تو حویلی کہیں نظر نہیں آرہی ۔ کرن نے کہا یہ جگہ جو تم دیکھ رہے ہو یہی میری حویلی ہے ۔ خرم اور زیادہ حیرت انگیز نظروں سے کرن کی طرف دیکھنے لگا اور بولا کیا تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا اس ویران قبرستان کو تم حویلی کہہ رہی ہو؟؟ کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟؟ کرن کہا میں سہی کہہ رہی ہوں آؤ میرے ساتھ حویلی میں چلو یہ کہہ کر کرن نے ایک قبر پر پڑے پتھر کو دھکیل کر سائیڈ پر کر دیا اور خود اس قبر میں اتر گئ خرم نے آہستہ آہستہ اس قبر کی طرف بڑھ کر دیکھا تو اس میں ایک خفیہ راستہ تھا ابھی خرم اس قبر کے باہر کھڑا اس راستے کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اتنے میں قبر کے اندر سے کرن نے خرم کو آواز دی اور خرم آرام سے آگے بڑھتا ہوا اس قبر میں اتر گیا اور کچھ دیر اندھیرے میں ہی آگے بڑھتا گیا اور اچانک سے وہ اک روشنی خرم کی آنکھوں میں پڑی خرم نے تھوڑا اور آگے بڑھ کر دیکھا تو خرم ایک بہت ہی بڑی حویلی میں کھڑا تھا اور کرن اس کے سامنے کھڑی تھی۔ کرن نے کہا یہ ہے میری حویلی دیکھو میں نے تم سے جھوٹ نہیں کہا تھا خرم بہت ہی حیرت سے اس حویلی کا جائزہ لے رہا تھا پھر کرن نے کہا یہ حویلی میرے دادا کے دادا نے بنوائی تھی اور اس حویلی کے دو راستے ہیں ایک راستہ جہاں سے ہم آئے ہیں اور دوسرا راستہ ساتھ والے گاؤں میں نکلتا ہے اور جو تم نے اوپر قبرستان دیکھا تھا وہ سب قبریں ہمارے خاندان والوں کی قبریں ہیں ہمارے دادا پردادا سب اسی جگہ دفن ہیں ابھی کرن خرم کو حویلی کے بارے میں بتا ہی رہی تھی کہ اچانک سے ایک خوفناک چیخ کی آواز سنائی دی خرم چونک گیا اور اس نے کرن سے پوچھا یہ کیسی آواز تھی ؟؟ کرن مسکرانے لگی اور بولی یہ میری بڑی بہن کی آواز ہے وہ کبھی کبھی غصے میں ایسی آواز نکالتی ہے خرم نے کہا لیکن وہ ہے کہاں کرن نے کہا وہ اپنے کمرے میں ہے تم یہیں رکو میں اس کو لے کر آتی ہوں۔۔۔ خرم نے کہا ٹھیک ہے پر جلدی آنا ۔ کرن نے ہاں میں سر ہلایا اور ایک کمرے کی طرف چلی گئی اور تھوڑی ہی دیر میں کرن ایک اور عورت کو ساتھ لے کر خرم کے پاس آگئ اور خرم سے کہا یہ میری بڑی بہن ہے خرم نے جب اس کو غور سے دیکھا تو ڈر گیا اور تھوڑا پیچھے کی طرف ہٹ گیا کیونکہ کہ اس عورت کے منہ سے خون رس رہا تھا جیسے کہ وہ کسی کا خون پی کر آئی ہو اس عورت نے جب خرم کو اپنے منہ کی طرف غور کرتے دیکھا تو اس نے جلدی سے اپنے منہ سے رس رہے خون کو جلدی اپنی آستین سے صاف کر لیا کرن نے خرم سے کہا دیکھو جو تم سوچ رہے ہو ایسا کچھ نہیں ہے میری بہن کو بچپن سے ہی کچا پکا گوشت کھانے کی عادت ہے اور یہ گوشت کو پوری طرح سے نہیں پکاتی بس آدھا ادھورا پکا کر کھا تی ہے اور کئ بار تو گوشت پورا ہی کچا رہ جاتا ہے اس وجہ سے اس کے منہ پر خون لگا ہوا تھا جو کہ مرغی کا تھا خرم نے کہا اچھا تو یہ بات ہے میں تو ایسے ہی ڈر گیا تھا اس کے بعد خرم نے کرن کی بہن سے پوچھا آپ کا کیا نام ہے اس عورت نے کوئی جواب نہیں دیا بس وہ خرم کو گھورے جا رہی تھی تبھی کرن نے اپنی بہن کا ہاتھ کس کے پکڑ اور خرم سے کہا اس کا نام عینی ہے پر یہ بول نہیں سکتی گونگی ہے کیونکہ کے جب ہمارے والد مر گئے تو تب سے ہی میری بہن صدمے سے ہی گونگی ہو گئی تھی ہم لوگوں نے بہت کوشش کی لیکن یہ بول نہیں پائی اس کے بعد یہ بس اشاروں سے بات کرتی ہے اس کے بعد کرن نے کچھ اشاروں سے عینی کو خرم کے بارے میں بتایا تو عینی نے ہاں میں سر ہلایا پھر کرن کچھ اور اشاروں سے عینی سے بات کی اور اپنا دوپٹہ اپنے سر پر رکھ کر عینی کو دکھایا اور عینی کی طرف دیکھتے ہوئے خرم کا ہاتھ پکڑا اور عینی کو پھر سے اشاروں سے کچھ کہا عینی نے پھر سے ہاں میں سر ہلایا اس کے بعد وہ واپس اپنے کمرے میں چلی گئی اور کرن نے خرم سے کہا میری بہن نے مجھے تمہارے ساتھ شادی کرنے کی اجازت دے دی ہے لیکن دیکھو اب رات بہت ہو گئی ہے اور اس وقت میں تمہارے ساتھ تمہارے گھر نہیں جا سکتی کیوں نہ تم بھی آج رات یہں رک جاؤ اور صبح ہم دونوں یہاں سے تمہارے گھر چلے جائیں گے خرم نے کچھ دیر سوچا اور بولا ٹھیک ہے اس کے بعد کرن خرم کو ایک کمرے میں لے گئی اور کہا تم یہاں سو جاؤ اور میں اپنی بہن کے پاس سونے جا رہی ہوں اس کے بعد وہ چلی گئی۔ اور خرم ایک بستر پر لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا یہ کمرہ بہت بڑا تھا اور اس کمرے کی دیواروں پر پرانے زمانے کی پینٹنگز لگیں ہوئی تھی اور بستر کے ٹھیک سامنے کرن کی ایک بہت بڑی تصویر لگی ہوئی تھی جس میں کرن دلہن بنی ہوئی تھی اور کمرے کے ٹھیک درمیان میں چھت پر ایک بڑا سا فانوس لگا ہوا تھا اور خرم لیٹے ہوئے ہی یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ اچانک سے خرم کی انکھ لگ گئی ۔ تبھی خرم نے ایک خواب دیکھا جس میں اس نے عینی کو بہت ہی خوفناک شکل میں دیکھا جو ننھے ننھے دودھ پیتے ہوئے بچوں کا گوشت کھا رہی تھی اور اس کے ساتھ کرن بھی بچوں کے زمین پر گرے خون کو چاٹ رہی تھی اور خون چاٹتے ہوئے جب کرن نے خرم کی طرف دیکھا تو اس کی شکل عینی سے بھی زیادہ بھیانک تھی اور جیسے ہی وہ خرم کی طرف بڑھی خرم گھبرا کر دوڑنے لگا تو اچانک سے خرم کی انکھ کھل گئی خرم نے جلدی سے ادھر اُدھر دیکھا پر کوئی نہیں تھا اور خرم نے ایک لمبا سا سانس لیا اور بولا خدا کا شکر ہے کہ وہ صرف خواب ہی تھا اس دوران خرم پوری طرح پسینے میں بھیگا ہوا تھا ابھی خرم دوبارہ سونے ہی والا تھا کہ اچانک سے اس کو محسوس ہوا کہ کوئی اس کو دیکھ رہا ہے خرم پوری طرح سے ڈر گیا اور کانپنے لگا اس نے کانپتی ہوئی گردن اردگرد گھوماتے ہوئے دیکھا پر کوئی دکھائی نہیں دیا پھر خرم محسوس کیا کہ کوئی اب بھی اونچی اونچی آواز میں سانسیں لیتے ہوئے میری طرف دیکھ رہا ہے اور جیسے ہی خرم کی نظر سامنے لگی کرن کی تصویر پر پڑی تو اس تصویر میں کرن نہیں تھی بلکہ ایک خوفناک سی شکل والی کوئی اور عورت تھی اور تبھی خرم نے جب اوپر لگے فانوس کی طرف دیکھا تو وہی خوفناک عورت فانوس پر چڑھ کر بیٹھی ہوئی تھی اور خرم کی طرف گھور رہی تھی یہ دیکھ کر تو خرم کے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی اور خرم چیخیں مارتا ہوا کمرے سے باہر بھاگا اور بھاگتے ہوئے وہ عینی کے کمرے کی طرف گیا تو اس نے دیکھا کہ عینی اور کرن اپنے کمرے میں نہیں تھیں اور اس کمرے میں بہت ساری انسانی بچوں کی ہڈیاں پڑی ہوئی تھیں یہ دیکھ کر خرم اور بھی زیادہ ڈر گیا ابھی وہ اس کمرے سے نکل کر بھاگنے ہی والا تھا کہ اچانک سے خرم کے سامنے کرن اور عینی آگئے اور خرم کو دیکھ کر کرن بولی تم یہاں کیا کر رہے ہو تم تو سونے لگے تھے نا ؟؟ خرم نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا وہاں کمرے میں کوئی خوفناک عورت ہے اور جہاں تمہاری تصویر لگی ہوئی تھی اس جگہ اسی خوفناک عورت کی تصویر لگی ہوئی ہے مجھے اس کمرے میں نہیں سونا مجھے ابھی اپنے گھر جانا ہے کیونکہ یہ پوری حویلی ہی عجیب ہے ۔اور پھر خرم نے کرن اور عینی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ سب کیا ہے دیکھو ؟؟۔ جب خرم یہ کہتے ہوئے ان ہڈیوں کی طرف دیکھنے لگا تو وہاں کوئی ہڈیاں نہیں تھیں اور کمرہ بلکل صاف تھا ۔ خرم ایک نے اک دم سے اپنا سر پکڑ لیا اور بولا یہاں تمہارے کمرے میں بہت سی ہڈیاں پڑی ہوئی تھیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ان ہڈیوں کو لیکن اب پتا نہیں وہ کہاں غائب ہو گئیں ۔ کرن نے کہا دیکھو مجھے لگتا ہے تم نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا ہے جس کی وجہ سے تم ڈر گئے ہو اور تمہیں ہر جگہ عجیب چیزیں نظر آرہی ہیں ۔ خرم نے کہا میں سچ کہہ رہا ہوں اس حویلی میں کچھ ہے۔ کرن نے کہا اچھا چلو مجھے دکھاؤ وہ عورت کہاں ہے اور وہ تصویر دکھاؤ ۔ خرم نے کہا نہیں میں وہاں نہیں جاؤں گا کرن نے کہا دیکھو ڈرو نہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہمیں بھی دکھاؤ وہ کون ہے جس نے تمہیں ڈرایا ہے ۔ خرم کرن اور عینی کو غور سے دیکھنے لگا اور پھر بولا چلو میرے ساتھ یہ کہتے ہوئے جب خرم کرن اور عینی کے ساتھ دوبارہ اس کمرے میں گیا تو دیکھا کہ ادھر کچھ بھی ویسا نہیں تھا جیسا خرم نے دیکھا تھا
جاری ہے ۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment