بھوک لگی ہے نا ! " وہ اس کی سہمی ہوئی آنکھوں میں

 "بھوک لگی ہے نا ! " وہ اس کی سہمی ہوئی آنکھوں میں دیکھ کر زور سے چیخا تھا .



"نن ۔۔ نہیں ۔۔ " وہ اس کے قریب آنے پر ڈر کے ایک دم پیچھے کو ہوئی ۔
" نہیں لگی پھر بھی کھاؤ ۔۔ " وہ قدرے زور سے چیخا تھا گلاب نے خوف میں آکر جو کچھ بھی آگے پڑا تھا وہی پلیٹ میں نکال کر کھانے لگی ۔
"معارج اسے بہت غور سے دیکھنے لگا ۔۔ وہ ڈر کے مارے ایسے کھا رہی تھی جیسے برسوں سے بھوکی ہو ۔ وہ ایک طنزیہ مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ ٹیبل پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر پھر سے اس کی جانب جھکا اور اس کے آگے کچھ پیسٹریز رکھنے لگا ۔ تمہیں پتہ ہے یہ پیسٹریز سوشیلا کو کتنی پسند تھی ۔ وہ دکھ بھرے لہجے میں بول کر آخیر چیخا ۔۔
"اس کے چیخنے پر گلاب نے انگلیاں اپنے کانوں پر رکھی ۔۔ وہ اسے بالکل پاگل لگا تھا ۔
"سسس ۔۔ سوری ۔۔ ممم ۔۔ میں نے نہیں مارا سوشیلا کو ۔۔ ممم میرے لالا نے بھی نہیں مارا ۔۔ میرا یقین کریں ۔ " وہ ان کے ظلم سے تنگ آکر رو پڑی تھی ۔
"اس کی بات سن کر معارج غصے میں آپے سے باہر ہوا اور ایک دم سامنے پڑی پیسٹریز اس کے منہ میں ٹھونسنا شروع کردیں ۔
"کھاؤ اسے ساری کھاؤ ۔۔ " وہ چیخ رہا تھا بہت چیخ رہا تھا ۔ وہ پاگل ہوگیا تھا جیسے !
"گلاب نے نفرت ، غصے سے اس کا ہاتھ اپنے منہ سے پرے ہٹایا اور کرسی سے اٹھ کر فورآ سینک کی جانب بھاگی اور الٹیاں کرنے لگی ۔ الٹیاں کرتے کرتے اسے نہیں پتہ وہ کب گری تھی احساس تب ہوا جب اس کو اپنے سر پر ہلکا سا درد محسوس ہوا ۔ گلاب دکھ بھری نظروں سے دور صوفے پر بیٹھے اس گھٹیا ، وحشی انسان کو دیکھمے لگی جو نجانے کس سوچ میں سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا تھا ۔
"گلاب کو اس وقت اس سے شدید نفرت محسوس ہوئی اسکا دل چاہا تھا اس کا قتل کردے ۔۔ وہ اسے خونخوار نظروں سے دیکھنے لگی ۔
"اب اسے یہاں سے بھاگنا تھا اس حویلی سے بھاگنا تھا وہ انسان تھی ۔ وہ اپنے آپ سے اور ان ظالموں سے لڑتے لڑتے تھک گئی تھی ۔ وہ اب اس حویلی کے کسی بھی فرد کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔ وہ غصے اور طیش میں اپنی جگہ سے اٹھی اور ڈائننگ ہال سے باہر جانے کے لیے بڑھی ۔
"معارج نے ایک گھورتی ہوئی نظر اس پر ڈالی ۔
"بہت غصہ آرہا ہے ۔۔ " وہ پھر سے ایک سگریٹ جلا کر مدھم سے لہجے میں کہہ اسے طیش دلا گیا تھا۔
"وہ اس کی بات پر مڑی اور اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے بولی تھی ۔
"بہت بہت زیادہ ۔۔ " دل کررہا ہے تمہارا قتل کر دوں اتنی بےدردی سے کہ تم سانس بھی نہ لے پاؤ اور تڑپ تڑپ کر مر جاؤ ۔ کیونکہ تمہارا قتل کرتے ہوئے مجھے شرمندگی نہیں ہوگی ۔ " وہ غصے سے پھٹی تھی ۔
"کیا جارحیت تھی اس لڑکی کے لہجے میں جو معارج اوزان زیدی کو غصے سے پاگل کر گیا تھا ۔ وہ صوفے سے اٹھا اور اسے لہولہان نظروں سے گھورتے ہوئے اس کے بالکل قریب آیا جو اس کے سامنے سینہ تان کر کھڑی تھی ۔ معارج کو اس کی اکڑ اور انا پر اتنا طیش آیا کہ وہ پاگل ہونے کو ہوا ۔ اس نے غصے میں گلاب کو بالوں سے پکڑ کر تھپڑوں سے اس کا چہرہ لال کردیا تھا ۔
"گلاب درد ، دکھ اور غصے کی شدت سے اپنے کان اور اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر رو پڑی تھی ۔ اسے ایسے لگا تھا اس کے کان کا پردہ پھٹ گیا ہو جیسے ۔
"اوقات دیکھو اور حرکتیں دیکھو ۔ مجھے آنکھیں دیکھاتی ہو۔ " معارج نے گلاب کو گیند کی طرح اچھال کر فرش پر گرایا اور آگے بڑھ کر گلاب کے پیٹ پر ٹانگوں کی برسات کردی تھی ۔۔ ایک پل کے لیے گلاب درد سے ساکت ہوگئی تھی کچھ ہی پل میں وہ اچانک اتنی زور سے چیخی تھی کہ کمرے کے دو دیوار ہل گئے تھے مگر پھر بھی اس سفاک ، ظلم شخص کو اس پر ذرا بھی رحم نہیں آیا تھا ۔ کیا سفاکی تھی ۔ کوئی اتنا بےدرد کیسے ہوسکتا ہے ۔ ؟

Post a Comment

Previous Post Next Post

Blog ads