عمران خان کے واپس جانے اور ہینڈلرز کے اپنے مفادات

 عمران خان کے واپس جانے اور پھر وہاں جا کر ڈیل کے انکار سے کنفیوژن مزید بڑھ چکی ہے ۔ اگر بات صرف خون خرابے کی وجہ سے تھی یا اداروں اور عوام کا لڑنےکا خدشہ تھا تو کیا دوبارہ نہیں ہو گا ؟ یہ سوال سب کو پریشان کر رہا ہے۔ چلیں میں آپ کو وہ ساری کہانی شروع سے سمجھاتا ہوں جو میرے ذرائع سے پہنچی ۔



عمران خان کو مارچ کے اعلان سے روکا جا رہا تھا یہاں تک کہ جب انھوں نے مارچ کا اعلان کیا تب شاہ محمود قریشی کو کال آئی تھی اور ٹریپ کی دھمکی دی گئی تھی جسے عمران خان نے مسترد کرتے ہوئے 25 مئی کو مارچ کا اعلان کیا ۔ 23 مئی سے پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی اور پریشر بڑھایا گیا لیکن عمران خان نے بھی طے کیا کہ وہ ثابت کر کے دکھائیں گے کہ ریاستی طاقت کے باجود ان کی پاور کتنی ہے ۔ انھوں نے 25 مئی کو مارچ کا فیصلہ کیا تو یہ اس دن انھیں سعودی عرب سے کال آئی ، اس کے علاؤہ متحدہ عرب امارات کے سفیر کی جانب سے رابطہ کیا گیا ۔ ان کے درخواست پہ مارچ سے قبل پی ٹی آئی کے دو سینئر راہنما اسلام آباد مزاکرات کےلیے پہنچ گئے جبکہ دوسری جانب مارچ کا آغاز کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد عمران خان توقع کر رہے تھے کہ انھیں کم از کم اسلام آباد میں مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اسلام آباد پہنچ کر مخصوص جگہ پہ بیٹھ جانے سے ماحول پرسکون ہو جانا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اٹک پل سے گزرنے تک عمران خان کو احساس ہو چکا تھا کہ سپریم کورٹ کے آرڈر بس ڈھکوسلا تھا ۔ تب اس نے ایسی چال چلی جس کا علم اس کے قریبی ساتھیوں کو بھی نہ ہو سکا۔ اس نے طے کر لیا کہ اس طرح اپنے لوگوں کو مروانے کا کوئی فاہدہ نہیں لہذا مارچ کو ختم کرنا ہے اور ہینڈلرز اور امپورٹڈ کو چکما دینا ہے۔ اس نے چھے مطالبات پہ اصرار کیا جو سب بظاہر مان لیے گئے۔ جواب میں اسے انتخابی اصلاحات پہ منایا گیا تو وہ مان گیا۔ یہ سب کچھ اس کے اسلام آباد میں داخلے کے دوران ہوا تھا اور جس وقت یہ چیزیں طے ہو رہی تھیں وہ اسلام آباد میں موجود تھا لیکن آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ وہ تین چار گھنٹے فضول میں ڈی چوک سے دور رہا۔ سارے معاملات طے کرنے کے بعد اس نے واپسی کی راہ لی اور خود کو اور اپنے لوگوں کو محفوظ طریقے سے واپس لانے میں کامیاب ہو گیا۔
پی ٹی آئی کے ایک سینٹر اور سینئر راہنما ، جن کے ساتھ میری قریبی تعلقات ہیں ، ان کے ساتھ میری بات چیت ہوئی تو انھوں نے ان چھے پوائنٹس کا تذکرہ کیا اور کہا کہ یہ بڑی کامیابی ہے لیکن فی الحال ان کو عوام کے سامنے نہ لایا جائے ۔ ہم سب یہی سمجھ رہے تھے کہ عمران خان چونکہ سعودی عرب کی سفارش پر مذاکرات کیے ہیں لہذا وہ گارنٹر ہیں اور یہ تحریری معاہدہ ہے لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ یہ زبانی ڈیل تھی جس میں ہینڈلرز نے اپنی دانست میں عمران خان کو دھوکہ دیا تھا لیکن عمران خان اس چال کو پہلے سے جانتا تھا۔ اسے بس اپنے نہتے کارکنان کو بچانا تھا کیونکہ اسے اطلاع مل چکی تھی کہ ڈی چوک میں کون سا جال بچھایا جا چکا ہے۔ اس نے چھے دن کا وقت دیا اور واپسی کی راہ لی ۔ یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ بنی گالا جائے گا لیکن وہ بنی گالا سے واپس پشاور پہنچ گیا اور ان کا پلان دھرا رہ گیا۔
ابھی پٹرول کی قیمتیں ہینڈلرز کے اپنے مفادات کے تحت بڑھائی گئی ہیں اور اس کا حکومت کے جانے آنے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس کا معاہدے سے کوئی تعلق ہے۔
عمران خان نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ کہہ کر ان کو سخت پیغام دے دیا ہے کہ میری کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔ یعنی اگر یہ سیانے ہیں تو وہ ڈیڑھ سیانا ہے۔ اگر مطلوبہ وقت میں اسمبلیاں نہیں ٹوٹتی تو وہ فوراً سے دھرنے کا اعلان نہیں کرے گا بلکہ مزید پریشر ڈالے گا۔ اس کے دو پلان ہیں ۔ ان کو ایگزیکیوٹ کرنے کے بعد وہ پھر سے اسلام آباد دھرنے کا اعلان کر سکتا ہے اور میرے ذاتی خیال میں وہ کہیں دس تاریخ کے بعد دھرنے کا اعلان کر سکتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس بار سٹریٹجی بلکل مختلف ہو گی ۔ ہو سکتا ہے کہ بڑے شہروں میں دھرنے والا پلان بی استعمال کیا جائے۔ لاہور میں الگ دھرنے کا پہلا پلان زیادہ مناسب تھا۔ اب کی بار تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے تاکہ راستے بھی بروقت صاف کیے جا جا سکیں اور ریاستی تشدد کا بھی مقابلہ کیا جا سکے۔ اگر سپریم کورٹ نے پرامن احتجاج کا حق نہ دیا تو پھر اس بار نقصان مظاہرین کا کم اور سیکورٹی فورسز کا زیادہ ہو گا۔
دوسری جانب ہینڈلرز نے طے کیا ہے کہ عمران خان کو کسی طرح قابو کیا جائے۔ الیکشن 2023 تک جائیں اور پھر نواز شریف کو وزیراعظم بنوایا جائے۔ ادھر
کراچی کو کنٹرول کرنے کےلیے پھر سے الطاف حسین کو واپس لایا جائے اور سندھ سے پی ٹی آئی کو مکمل آؤٹ کیا جائے۔ پنجاب میں اگلی حکومت ہر صورت ن لیگ کو دی جائے۔ عمران خان ابھی بھی پرسکون ہے اور کہہ رہا ہے کہ میرے پاس پلان موجود ہے۔ عمران خان کو ان کے ہر قدم کا پہلے سے ہی علم ہو جاتا ہے اور اپنی سٹریٹجی بدل دیتا ہے۔ ہمیں عمران خان کی قیادت پہ مکمل اعتماد ہے ۔ ان شاءاللہ وہ ہمیں اس غلامی سے نجات دلا کر رہے گا

Post a Comment

Previous Post Next Post

Blog ads