راولپنڈی سے حسن ابدال جاتے ہوئے جی ٹی روڈ پر اک گاؤں "جلال سر" کے نام سے ہوا کرتا تھا ۔ اس گاؤں کو قدرتی چشمے کے کنارے جلال خان کھٹڑ نے آباد کیا لیکن بعد میں اس کانام مغل شہنشاہ جہانگیر نے واہ رکھ دیا کیونکہ یہاں کے قدرتی چشمے اور سیر گاہیں دیکھ کر اس کی زبان سے واہ واہ جاری ہو گیا ۔
مغلیہ باغاتِ واہ کی پہلی تعمیر شہنشاہ جہانگیر کے بیٹے شاہ جہاں نے وہاں موجود قدرتی چشموں کے گرد کرائی - یہ چشمے آج بھی جاری ہیں ۔ ان باغات کا کچھ حصہ واہ گاؤں میں جبکہ کچھ حسن ابدال نقشے میں ظاہر ہوتا ہے۔ مغلوں کی حکومت کےدوران شہنشاہ اکبر نے جلال خان کھٹڑ کے خاندان کو مغلیہ باغاتِ واہ کا داروغہ رکھا ۔
مغلوں کے زوال کے بعد انگریز نے ایک ایک انچ زمیں کی پیمائش کے کئے تحصیل دار اور پٹواری نظام لاگو کیا ۔ اس دوران واہ گاؤں کے محمد حیات خان کھٹڑ ، ایسٹ انڈیا کمپنی کی نظروں میں آئے جن کو ان باغات کی رکھوالی کا کام سونپا گیا ۔ 1857 سے 1899 کے دوران بہترین گارکردگی پر انہیں "سر" کا خطاب ملا اور اس کے ساتھ ساتھ نائٹ گرینڈ کمانڈر اور ملکہ وکٹوریہ کی طرف سےذاتی طور پر ان کی خدمات بطور اسٹنٹ کمشنر پنجاب کو سراہا گیا۔
1880 سے 1883 کے دوران محمد حیات خان کھٹڑ نے واہ گاؤں میں ایک تین منزلہ خوبصورت عمارت تعمیر کرائی جس کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی جو آج بھی موجود ہیں ۔ اس تین منزلہ عمارت کے اوپری چوبارے سے آج بھی ہر طرف پھلیے باغات کی حدود واضح نظر آتی ہیں۔
سر سید احمد خان کے قریبی دوست ہونے کی وجہ سےسر محمد حیات خان نے علی گھڑ یونیورسٹی کو بہت زیادہ فنڈ دیئے ۔ اس کے بعد یونیورسٹی کالج پنجاب ( موجودہ پنجاب یونیورسٹی) کے قیام میں فنڈنگ کے لئے بھی حکومت پاکستان ان کی شکر گزار رہی ہے۔ ان ہی کےبیٹےسر سکندرحیات خان پہلی جنگ عظیم تک برٹش آرمی کے لئے ضلع اٹک سے فوجی بھرتی کا کام کرتے رہےان ہی کے بڑے بیٹے میجر شوکت حیات خان جو علی گڑھ سے تعلیم یاقتہ تھے بعد میں نیشنل یونینسٹ پارٹی سے پنجاب اسمبلی میں ضلع اٹک سے منتخب ہوئے۔ اور سقوط ڈھاکہ کے بعد استعفٰی دے کر سیاست کو خیر آباد کہا. طاہر شاہ