محبت کا خوفناک موڑ
ایک حقیقی ہارر لو سٹوری
پارٹ نمبر 1
(بچے یہ سٹوری مت پڑھیں)
ایک بار ہمارے ساتھ والے گھر میں جو کہ ابھی نیا ہی تعمیر ہوا تھا اس میں نئے کرایا دار شفٹ ہوئے جو کہ ٹوٹل چار لوگ تھے ایک سلیم نامی شخص تھا اس کے ساتھ اس کی بیوی جس کا نام نمرہ اور ایک بیٹی جس کا نام غزل تھا جو کہ دو سال کی ہو گی شاید اور ایک اس کی سالی مدیحہ تھی یہ لوگ بہت ہی سلجھے ہوئے اور اچھے اخلاق کے لوگ تھے پر گھر ابھی تعمیر ہوا تھا تو اس وجہ سے اس گھر میں سوئی گیس کا میٹر نہیں لگا تھا ویسے تو اس گھر کے مالک مکان نے سوئی گیس کے میٹر کے لیئے درخواست جمع کروا رکھی تھی پر ابھی سوئی گیس کا کنیکشن نہیں لگا تھا تو جب ان کرایا داروں کا اس گھر میں پہلا دن تھا سلیم نے نمرہ سے کہا بیگم سامان کی سیٹنگ کر کے میں تھک گیا ہوں اور ابھی گیس کا سلنڈر بھی نہیں ہے ایسا کرو کہ یہ ساتھ والے گھر سے چائے ہی بنا کر لے آؤ۔ ان سے کہنا کہ ہم کچھ ہی دیر میں اپنا گیس کا سلنڈر لے آئیں گے تو اس کے بعد ہم کھانا پکانا کر لیں گے اور اسی بہانے تمہاری ہمسایوں کے ساتھ سلام دعا بھی ہو جائے گی اور ہمیں یہ بھی پتا چل جائے گا کے آس پاس کے لوگ کیسے ہیں تو نمرہ کہا ایسے کیسے میں کسی ہمسائے کے گھر جا سکتی ہوں وہ لوگ کیا سوچیں گے ۔ سلیم نے کہا یار تم کوشش تو کر کے دیکھ لو اور ہم نے کونسا روز روز ان سے ایسا کہنا ہے پلیز میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے نمرہ نے کہا اچھا میں ٹرائی کر کے دیکھتی ہوں مدیحہ جو کہ نمرہ کی بہن تھی اس نے کہا آپی میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں اور نمرہ نے ایک تھرمس اور چائے بنانے کا سامان پکڑا اور انہوں نے ہمارے گھر کے دروازے پر دستک دی میری امی نے باہر جا کر دیکھا تو نمرہ اور مدیحہ نے سلام کیا اور کہا آنٹی ہم لوگ آپ کے نئے ہمسائے ہیں اور آج ہمارا پہلا دن ہے آپ کے ساتھ والے گھر میں لیکن ہمارے گھر میں ابھی سوئی گیس کا کنیکشن نہیں لگا پر ہم تھوڑی دیر تک اپنا انتظام کرلیں گے لیکن ابھی کے لیئے کیا آپ ہمیں ایک بار چائے بنانے دیے سکتیں ہیں اپنے کچن میں امی نے کہا بیٹا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے اس گھر کے دروازے ہمیشہ آپ کے لیئے کھلے ہیں آپ لوگ جب چاہو یہاں آکر کھانا پکانا کر سکتی ہو اور کبھی بھی کوئی بھی کام ہو بلا جھجک تم مجھ کہہ سکتی ہو آخر ہمسائے ہی ہمسایوں کے کام آتے ہیں اس کے بعد نمرہ اور مدیحہ کچن میں چائے بنانے لگے ۔ اور اس دن میں باہر سے گھر آیا اور فوراً سے کچن کی طرف کچھ کھانے کے لیئے گیا مجھے نہیں معلوم تھا کچن میں کوئی ہے میں اچانک سے کچن میں داخل ہوا تو نمرہ اور مدیحہ نے میری طرف دیکھا میں نے بھی ان کی طرف حیرت سے دیکھا اور میں فوراً سے کچن سے باہر آگیا تبھی میری بڑی بھابی سیڑھیوں سے اتر کر نیچے آرہی تھی میں نے جلدی سے بھابی سے کہا بھابھی وہاں کچن میں دو لڑکیاں کھڑی ہیں وہ کون ہیں اور کہاں سے آئی ہیں کیونکہ ہمارے گھر میں تب صرف دو ہی لیڈیز تھیں ایک میری امی اور دوسری میرے بڑے بھائی کی بیوی اس کے اعلاوہ اور کوئی لیڈیز نہیں تھی اس وجہ سے میں حیران ہو رہا تھا بھابی نے کہا ایسا کیا کر دیا ان بیچاری لڑکیوں نے جو تم اتنے اتاولے ہو ریے ہو ۔ میں نے کہا بھابھی اس سے پہلے میں نے ان کو کبھی اس گھر میں کیا اس پورے محلے میں نہیں دیکھا اتنے میں امی آئی اور میں نے امی سے پوچھا کہ کچن میں وہ لڑکیاں کون ہیں امی نے کہا وہ میری بیٹیاں ہیں کیوں کیا ہوا ؟ میں نے کہا ہوا تو کچھ نہیں کہیں وہ کوئی ہوائی چیزیں نہ ہوں کیونکہ ان کو میں نے پہلے کبھی اس گھر میں کیا اس پورے محلے میں نہیں دیکھا اور ان کی شکلیں بھی بہت زیادہ سفید ہیں آٹے کی طرح ۔ امی نے کہا تم بھی نہ پتا نہیں کیا کیا بولتے رہتے ہو اتنے میں نمرہ اور مدیحہ بھی چائے پکا کر صحن میں آگئی میں کچھ بولنے لگا پر چپ ہو گیا امی نے نمرہ سے پوچھا جی بیٹا بنالی چائے اس نے کہا جی آنٹی آپ کا بہت بہت شکریہ امی نے نمرہ اور مدیحہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ دیکھو یہ تمہیں ہوائی چیزیں نظر آتیں ہیں میں نے ساتھ ہی اپنی نظریں نیچے کر لیں۔ اس دوران مدیحہ کی ہنسی نکل گئی میں نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو مجھے بہت شرم آئی اس دن میں بہت شرمندہ ہوا کیونکہ وہ میری طرف دیکھ کر ہنسنے جارہی تھی نمرہ نے میری امی سے پوچھا کیا ہوا ہے بھائی کو ؟ امی نے کہا یہ تم دونوں کو ہوائی چیزیں سمجھ رہا تھا ۔ یہ سن کر نمرہ بھی ہنسنے لگی اور بولی بھائی ہم ہوائی چیزیں نہیں ہیں بلکہ ہم آپ کے نئے ہمسائے ہیں اور یہ میری چھوٹی بہن ہے مدیحہ۔ اتنے میں مدیحہ نے کہا اور میں چھوٹی ہوائی چیز ہوں اس کے بعد سب مجھ پر ہنسنے لگے اب میں اپنی نظروں میں پوری طرح شرمندہ ہو گیا تھا اور اپنی آنکھیں نیچے کی طرف کر کے ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا اسی لیئے میں جلدی سے گھر سے باہر چلا گیا اور اپنے گھر کے سامنے والے گھر کے تھڑے پر بیٹھ گیا میں یہی سوچ رہا تھا کہ دیمی آج تو اچھا اللو بنا ہوں وہ بھی اتنی خوبصورت لڑکی کے سامنے اسی وجہ سے وہ مجھ پر ہنسے جا رہی تھی اتنے میں ہمارے گھر کا دروازا کھلا اور وہ دونوں بہنیں ہمارے گھر سے نکل کر اپنے گھر کی طرف جانے لگیں اتنے میں مدیحہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا ہیلو۔۔۔۔۔۔ جب میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ اپنے گھر کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ہوائی چیزیں آپ ساتھ والے اس گھر میں رہتیں ہیں اور اب آپ کی ہمسائی ہیں یہ کہتے ہوئے پھر سے ہنستے ہوئے اپنے گھر میں چلی گئی اور میں بدھو کی طرح اس کی طرف دیکھتا رہا اس کے بعد میں پھر سے میں اپنے گھر چلا گیا اور میں نے امی سے کہا امی آپ کو کیا ضرورت تھی ان کے سامنے یہ کہنے کی کہ میرا بیٹا تمہیں ہوائی چیزیں کہہ رہا ہے ۔ امی نے کہا تو کیا تم نے ان کو ہوائی چیز نہیں کہا تھا ؟ میں نے کہا جی کہا تھا پر میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ آپ ان کے سامنے یہ بولو ۔ امی نے کہا تو پھر ایسا کیا ہو گیا جو تمہیں اتنا برا لگ رہا ہے ۔ میں نے کہا آپ نے دیکھا نہیں تھا اس کی چھوٹی بہن کیسے مجھ پر ہنس رہی تھی امی نے کہا چلو کوئی بات نہیں ویسے بھی وہ ہمارے نئے ہمسائے ہیں اور وہ بہت اچھی لڑکیاں ہیں ۔ میں نے کہا ہاں ہاں پتا ہے کتنی اچھی ہیں یہ کہہ کر میں چھت پر چلا گیا اور میری قسمت پھر خراب تھی کیونکہ مدیحہ بھی اپنی چھت پر ٹہل رہی تھی میں نے اس کو ٹہلتے دکھا تو میں اپنے ٹیرس کی طرف چلا گیا تاکہ یہ مجھے دیکھ نہ سکے کیونکہ ہمارے گھروں کے درمیان صرف چار فٹ اونچی دیوار تھی اس وجہ سے ایک چھت سے دوسری چھت پر جانا بہت آسان تھا میں اپنے گھر کی چھت پر کھڑا باہر گلی میں دیکھ رہا تھا کہ اچانک سے مدیحہ نے مجھے دیکھ کر آواز لگائی ہوائی چیز اور ساتھ دیوار کی آڑ میں بیٹھ کر چھپ گئ میں نے جب اس کی چھت پر دیکھا تو کوئی نظر نہیں آیا ۔ میں نے سوچا شاید آواز لگا کر نیچے بھاگ گئی ہو گی اور میں پھر سے باہر گلی کی طرف دیکھنے لگا کی پھر سے مدیحہ نے وہی آواز لگائی اور پھر سے چھپ گئی مجھے بہت غصہ آرہا تھا کہ یہ اب مجھے روز اس نام سے چھیڑے گی میں ادھر ہی کھڑا رہا اور اسی طرف ہی دیکھتا رہا اتنے وہ پھر سے اٹھی اور میں نے اسے دیکھ لیا اس کے بعد وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی ۔ مجھے غصہ تو بہت آرہا تھا پر میں اس کا کچھ نہیں کر سکتا تھا اس لیئے میں چپ کر کے چھت سے نیچے آگیا اور وہ پیچھے سے آوازیں لگاتی رہی میں نے اپنے ڈرائنگ روم کا دروازا کھولا اور ڈیک میں گانے لگا کر گلی میں کھڑا ہو گیا کیونکہ اس ٹائم سکول کالج وغیرہ کو چھٹی ہو جایا کرتی تھی تو ہماری گلی سے بہت سی سکول کالج کی لڑکیاں گزرا کرتی تھیں اور اس وقت میں لپھنڈر ( یعنی رنگباز ) ہوا کرتا تھا اور یہ لمبے لمبے بال عجیب و غریب سٹائل کے کپڑے اکثر میں روز کالج سے جلدی آجایا کرتا تھا اور سارا دن اپنے دوستوں کے ساتھ آوارہ گردیاں کرتا تھا اسی دوران دو تین لڑکیوں سے دوستی بھی تھی اور ان سے رات رات بھر فون پر باتیں کرنا میسجز کرنا جھوٹے سچے وعدے کرنا کبھی ناراض ہو جانا کبھی منانا وغیرہ وغیرہ اس وقت سمارٹ فون نہیں ہو کرتے تھے بس بٹنوں والے موبائل ہوا کرتے تھے لیکن اس وقت چائنہ کے فون بھی بہت چل پڑے تھے جن میں میموری کارڈ بھی ڈل جاتا تھا اور میرے ڈرائنگ روم میں ساؤنڈ سسٹم اور کمپیوٹر پڑا ہوتا تھا اور اکثر میں گانے وغیرہ ڈاؤن لوڈ کر کے دوستو کے میموری کارڈ میں ٹرانسفر کر دیا کرتا تھا اور اس بات کا میرے گھر میں سب کو پتا تھا ۔ ایک دن میں گانے چلا کر اپنے گھر کے سامنے بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک چھوٹا سا کنکر کہیں آکر مجھے لگا میں نے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر سے گانے سننے میں مصروف ہو گیا لیکن پھر سے ایک اور کنکر مجھے لگا اور جیسے ہی میں اوپر دیکھا تو مجھے مدیحہ چھپتی ہوئی نظر آئی میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور تھڑے سے اٹھ کر اپنی بیٹھک میں آکر کمپیوٹر پر بیٹھ گیا اتنے میں باہر سے مدیحہ کی ہنسی کی آواز آئی میں نے بیٹھک سے باہر دیکھا تو مدیحہ ہاتھ میں چائے کا برتن اور دودھ وغیرہ پکڑے ہمارے مین گیٹ سے ہمارے گھر میں داخل ہو رہی تھی میں پھر سے واپس کمپوٹر میں مصروف ہو گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اندر والے کمرے سے میری بھابھی اور مدیحہ میری بیٹھک میں آئے میں نے ساؤنڈ بند کیا اور بھابی سے پوچھا جی بھابھی کیا ہوا اور یہ پاگل لڑکی کو یہاں کیوں لائی ہیں بھابی نے کہا خبردار جو میری سہیلی کے بارے میں کوئی بات کی تو میں کہا بھابھی آپ کو نہیں پتا اس کا دماغ خراب ہے یہ مجھے تنگ کرتی رہتی ہے ۔ بھابھی نے کہا یہ بہت اچھی ہے یہ کیوں تمہیں تنگ کرے گی اس دوران مدیحہ کی وہ ہنسی مجھے آج بھی یاد ہے اس کے گالوں پر پڑتے ڈمپل کی وجہ سے وہ بہت ہی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی کیونکہ کے وہ کشمیر کی رہنے والی تھی اسی وجہ سے وہ بہت ہی زیادہ پیاری تھی بڑی بڑی آنکھیں دلکش چمچما تا ہوا چہرہ پنک باریک ہونٹ گورے گال اور رنگ روپ ایسا کہ کوئی بھی دیکھتا تو دیکھتا ہی رہ جاتا میں بھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہیں کھو سا گیا تھا تبھی بھابی نے اچانک سے میری آنکھوں کے آگے اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے مجھے کہا او ۔۔ جو گانے تم سارا دن ڈیک پر لگاتے رہتے ہو وہ تمام گانے اس کے میموری کارڈ میں کاپی کر دو کیونکہ وہ تمام گانے مدیحہ کے پسندیدہ گانے ہیں اس وجہ سے یہ میرے پاس آئی تھی تاکہ تم اس کو وہ گانے کاپی کر دو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے بھابی لیکن آپ اس کو بولو پہلے سوری بولے۔ مدیحہ فٹ سے بولی او۔۔۔۔۔ ہوائی چیز میں نے کچھ نہیں کیا تو سوری کس بات کی بولوں؟؟ ۔ میں نے بھابھی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ دیکھا بھابھی اس نے میری چھیڑ بنا دی ہے جب بھی دیکھو تو یہ مجھے ہوائی چیز بولتی ہے بھابھی نے کہا تو پھر کیا ہوا تم نے بھی تو شروع میں ان کے بارے میں کچھ ایسا ہی کہا تھا نا ؟ میں نے کہا جی بھابھی پر ۔۔۔ اتنے میں بھابی نے میری بات کو کاٹتے ہوئے کہا اب یہ پر ور چھوڑو اور جلدی سے اس کو گانے کاپی کر کے دو ۔ میں نے مایوسی بھرے انداز میں میموری کارڈ پکڑ لیا اور گانے کاپی کرنے کے لیئے اس کو کمپیوٹر سے منسلک کر دیا اور بھابھی نے مدیحہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا مدیحہ جب تک یہ گانے کاپی کرتا ہے تب تک آؤ میں تمہیں چائے پلاتی ہوں مدیحہ نے کہا جی بھابی اور مدیحہ نے جاتے ہوئے مجھ سے کہا او مسٹر ہوائی چیز جو گانے تم روز لگاتے ہو وہی کاپی کرنا آ لتو فالتو نہ کر دینا ورنہ میں نے دوبارہ کروانے ہیں سب۔ میں نے چڑ کے کہا اچھا اچھا ٹھیک اب جاؤ یہاں سے اور وہ جاتے ہوئے مجھے منہ چڑا کر بھابھی کے پیچھے پیچھے چلی گئی ۔ میں نے جب اس کا میموری کارڈ کمپیوٹر میں اوپن کیا تو اس میں کچھ تصاویر تھیں میں نے ان تصاویر کو اوپن کر کے دکھا تو وہ سب میری تصویریں تھیں جو کہ مدیحہ نے شاید چھت سے اور اپنی کھڑکی سے لی تھیں جس میں میں کبھی تھڑے پر بیٹھا ہوا تھا تو کبھی گلی میں کھڑا ہوا تھا کبھی چھت پر پتنگ اڑا رہا تھا ۔ یہ سب تصویریں دیکھ کر میں حیران ہو گیا کہ یہ میری تصویریں کیوں اتارتی پھرتی ہے آخر اس کا مقصد کیا ہے میں سوچ میں پڑ گیا اتنے میں مجھے کسی کے بیٹھک کی طرف آنے کی آواز سنائی دی میں نے جلدی سے تصویروں والا فولڈر بند کر دیا اور گانے کاپی کرنے لگا تبھی میں نے دیکھا کہ مدیحہ ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے میری طرف آئی اور بولی کتنا ٹائم لگے گا ؟ میں نے کہا بس تھوڑی دیر اس کے بعد وہ پاس میں ہی پڑے ایک صوفے پر بیٹھ گئی اور چائے پیتے ہوئے میری طرف دیکھنے لگی میں نے جب اس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہی تھی میں نے جلدی سے آنکھیں کمپیوٹر کی طرف کر لیں مدیحہ نے بولا او ہوائی چیز چائے پیو گے میں نے کہا نہیں شکریہ اتنے میں میری بھابھی بھی آگئ اور وہ دونوں باتیں کرنے لگے میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی طرف دیکھتا رہا وہ بہت ہی زیادہ ملنسار اور ہنسمکھ لڑکی تھی کچھ دیر کے لیئے تو ایسے ہی لگ رہا تھا کہ جیسے مدیحہ بھی اسی گھر کی فرد ہے اور ساتھ میں میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اس نے میری تصویریں کیوں اتاری ہیں پہلے تو دل کیا کہ بھابھی کو اس کے بارے میں بتاؤں پر اس کی باتیں اور بھابھی کے ساتھ اس کی کم وقت میں بہت زیادہ دوستی کی وجہ سے میں چپ رہا میں نے سوچا کہیں بیچاری شرمندہ نہ ہو جائے یا بھابھی اس پر غصہ نہ ہو جائے ۔ اتنے میں مدیحہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا جی مسٹر ہوائی چیز ہو گئے ہیں گانے کاپی؟ ۔ میں نے کہا ہاں ہو گئے ہیں اور میموری کارڈ اتار کر اس کو دے دیا اس کے بعد وہ اور بھابھی بیٹھک سے چلے گئے۔۔۔ تحریر دیمی ولف۔۔ ۔ اور میں جلدی سے اٹھ کر باہر چلا گیا تاکہ جب وہ اپنے گھر جانے لگے گی تو اس کو دیکھوں گا اور وہی ہوا وہ ہاتھ میں تھرمس پکڑے ہمارے گھر سے باہر نکل کر اپنے گھر کے دروازے پر گئ اور اندر جانے سے پہلے اس نے ایک بار پھر سے میری طرف دیکھتے ہوئے منہ چڑھایا اور اندر چلے گئی میں مسکرا کر واپس اپنی بیٹھک میں آگیا ۔ اور اس کے بارے میں سوچنے لگا ۔ بس اس دن سے میں بہت زیادہ اس کے بارے میں سوچنے لگا اور میرا دل کرتا تھا وہ میرے پاس ہی بیٹھی رہے اور میں اس کو دیکھتا رہوں اور مدیحہ کا بھی ہمارے گھر آنا جانا بڑھ گیا وہ کوئی نہ کوئی بہانا بنا کر ہمارے گھر آجایا کرتی تھی جب اس کے بہنوئی کام پر چلے جاتے اور وہ ہمارے گھر آجاتی کبھی کبھی نمرہ بھی اس کے ساتھ آجاتی اور میری امی اور بھابھی وغیرہ کے پاس بیٹھ کر گپ شپ لگایا کرتیں ۔ ایک دن مدیحہ لوگوں کے گھر اس کے بہنوئی کے ساتھ تین اور لڑکیاں آئیں وہ بھی مدیحہ کی طرح خوبصورت تھیں پر مدیحہ سے زیادہ نہیں تھی اور مدیحہ لوگوں کے گھر کی بیٹھک کا باہری دروازا بھی ہمارے بیٹھک کی طرح جالی کا تھا جس سے دن کے وقت اگر باہر سے بیٹھک کے اندر دیکھیں تو کچھ دکھائی نہیں دیتا پر بیٹھک کے اندر سے باہر دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے ۔ اتنے میں بارش ہوئی اور میں گانے لگا کر باہر گیا اور بیٹھک کے سامنے کھڑا ہو گیا اور مدیحہ اپنے مہمانوں ( یعنی وہ تین لڑکیوں) کے ساتھ اپنی بیٹھک میں بیٹھی ہوئی تھی ۔ پر مجھے یہ نہیں معلوم تھا کے مدیحہ لوگوں کی بیٹھک میں بیٹھے ہوئے کوئی مجھے دیکھ رہا تھا میں بارش میں کھڑا بھیگ کر گانوں کا مزہ لے رہا تھا اور ایک دو دوست بھی میرے ساتھ کھڑے تھے ہم لوگ ادھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے اتنے میں میرے دوست نے کہا اچھا یار ہم ذرا بازار سے ہو کر آتے ہیں یہ کہہ کر وہ چلے گئے لیکن میں وہیں پر کھڑا رہا اتنے میں لڑکیوں کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں میں نے ادھر اُدھر دیکھا پر کوئی لڑکی نظر نہیں آئی میرے بال بہت لمبے تھے جو کہ بارش سے گیلے ہو کر میرے چہرے پر گر رہے تھے میں اپنے دونوں ہاتھوں سے ان کو پیچھے کی طرف کر رہا تھا اتنے میں کسی لڑکی نے کہا پونی چاہیے ؟ میں نے جلدی سے ادھر دیکھا جس سائیڈ سے آواز آئی تھی پر ادھر کوئی نہیں تھا اس کے بعد کافی ساری لڑکیوں کی ایک ساتھ ہنسنے کی آوازیں آئیں میں جب غور کیا تو وہ آوازیں مدیحہ کی بیٹھک سے آرہی تھیں میں فوراً سمجھ گیا کے جالی کے دروازے سے کچھ لڑکیاں میری طرف دیکھ کر ہنس رہیں ہیں ۔ میں شرمندہ سا ہو گیا اور جلدی سے اپنی بیٹھک میں آگیا اس کے بعد میں چھت پر چلا گیا موسم ایسا ہو گیا تھا کہ دن کے 2 بج رہے تھے پر رات جیسا سما ہو گیا تھا اتنے کالے بادل چھائے ہوئے تھے میں مدیحہ کو یاد کر ہی رہا تھا کہ اچانک سے مدیحہ بھی چھت پر آگی لیکن اس کے سا وہ تین شرارتی لڑکیاں بھی تھیں وہ میری طرف دیکھ کر پاگلوں کی طرح ہنس رہی تھیں لیکن اس دن مدیحہ مجھے افسردہ سی نظر آرہی تھی وہ تینوں لڑکیاں اپنی چھت پر کبھی ادھر کبھی اُدھر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہی تھیں جیسے وہ بارش میں کھیل رہی ہوں میں مسکراتا ہوا ان کی اٹھکھیلیاں دیکھ رہا تھا اتنے میں ان میں سے ایک لڑکی مجھے کچھ اشارا کر رہی تھی اور میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے ہنس رہا تھا کہ اچانک سے میری نظر مدیحہ پر پڑی تو وہ ایک سائیڈ پر کھڑی پوری طرح غصے سے مجھے دیکھ رہی تھی اس کو میں نے پہلی بار اتنے غصے میں دیکھا تھا ورنہ وہ تو ان تینوں لڑکوں سے بھی زیادہ خوش مزاج تھی لیکن آج تو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجھے کھا ہی جائے گی میں جلدی سے دوسری سائیڈ پر جا کر باہر گلی میں جھانکنے لگا اس دوران وہ لڑکیاں میری طرف دیکھ کر کوئی نہ کوئی شغوفہ چھوڑتیں رہیں کبھی پونی کا تعنہ دیتیں رہیں لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ سب لڑکیاں نیچے چلی گئیں پر مدیحہ ابھی بھی چھت پر تھی میں نے اس کی طرف دیکھا وہ اداس لگ رہی تھی میں نے ہمت کر کے اس کو آواز لگائی او ہوائی چیز آج کیا ہوا تمہیں ؟؟ اس نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور پھر سے اداس کھڑی رہی میں اس کی دیوار کے پاس گیا اور پھر سے پوچھا کیا ہوا ہے تم ایسے اداس کیوں کھڑی ہو۔ اس نے کہا تم سے مطلب میں چاہے جیسے بھی ہوں۔ تم جاؤ نیچے وہ بھی نیچے گئیں ہیں ساری جاؤ گلی میں کھڑے ہو جاؤ وہ تمہیں پھر سے دیکھیں گی اور تمہیں آواز دیں گی اور کوئی تمہیں پسند آجاے تو شادی بھی کر لینا اس سے ۔ میں مدیحہ کی یہ بات سن کر حیران رہ گیا ۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ آخر یہ مجھے ایسا کیوں کہہ رہی ہے جب کے میں تو ان تینوں لڑکیوں کو جانتا بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد وہ غصے سے نیچے چلی گئی اور میں یہی سوچتا رہا کہ آخر بات کیا ہے اس کے بعد میں بھی نیچے آگیا اس دن میں بار بار گلی اور چھت پر جاتا رہا لیکن مدیحہ کو دوبارہ نہ دیکھ سکا میرا بہت دل کر رہا تھا کہ میں اس سے بات کروں لیکن میں بہت ہی زیادہ پریشان ہو گیا تھا کیونکہ میں نے پہلے دن سے ہی اس کو ہنستے مسکراتے ہوئے ہی دیکھا تھا لیکن آج اچانک سے اس کا میرے ساتھ ایسا برتاؤ میں نے پہلی بار دیکھا تھا ۔ اس کے بعد میں دوبارہ گلی میں جا کر ان کی بیٹھک کے سامنے کھڑا ہو گیا تبھی ان کی بیٹھک کا دروازا تھوڑا سا کھلا اور اس میں سے ایک لڑکی نے میری طرف مسکرا کر دیکھا میں نے اس کو آنکھوں سے چھت پر جانے کا اشارہ کیا اور میں جلدی سے چھت پر چلا گیا جب میں چھت گیا تو وہ لڑکی جس کو میں نے چھت پر آنے کا اشارہ کیا تھا وہ اکیلی چھت پر آگئ تھی لیکن اس کے ساتھ اور کوئی چھت پر نہیں آیا اس نے مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلا کر ہائے کا اشارہ کیا میں نے بھی مسکرا کر ہاتھ ہلا دیا پھر وہ دوبارہ ہاتھ سے مجھے کچھ اشارا کرتے ہوئے اپنی سیڑھیوں کی طرف دیکھ رہی تھی مجھے لگا کہ جیسے اس کی سیڑھیوں میں کوئی اور وہ چھپ کر کھڑا ہے اور میں جلدی سے نیچے آگیا ۔ میں افسردہ سا ہو کر اپنی بیٹھک میں چلا گیا اور غمگین گانے لگا کر سننے لگا کیونکہ مجھے لگا تھا کہ وہ جب اوپر آئے گی ہو سکتا ہے مدیحہ بھی اس کے ساتھ اوپر آجائے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ اتنے میں میرے دوست وغیرہ آگئے وہ بولے چل یار دیمی موسم گھومنے کا ہے اور تو گھر میں گھسا ہوا ہے چل جلدی باہر آ آئسکریم کھانے چلتے ہیں میں نے کہا یار تم چلے جاؤ آج میرا دل نہیں کر رہا کہیں جانے کو انہوں نے بولا سیدھا سے آتا یا ہم آنٹی سے اجازت لے کر تجے لے جائیں ؟ میں نے کہا رکو میں آتا ہوں اور میں ان کے ساتھ چلا گیا سارے رستے وہ مجھے سے پوچھتے رہے کہ تیرا منہ کیوں اترا ہو ہے میں نے کہا نہیں یار ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا ہے بس بارش کی وجہ سے بھیگا ہوا ہے تبھی ایسا لگ رہا ہے تم لوگوں کو ورنہ منہ تو ٹھیک ہی ہے ۔ اتنے میں میرا ایک لنگوٹیا دوست بولا یار یہ رنگباز ہے مجھے لگتا ہے اس کو کسی لڑکی نے کچھ کہہ دیا ہوگا اس وجہ سے یہ آج بول چال نہیں رہا کیونکہ میں اس کو بہت اچھے سے جانتا ہوں یہ خود سارا دن لڑکیوں کو بیواقوف بناتا رہتا ہے طرح طرح کے جھوٹے وعدے کرتا رہتا ہے لیکن آج اس کو کسی لڑکی نے بیواقوف بنا دیا ہوگا اسی وجہ سے اس کی یہ حالت ہے ۔ میں اپنے دوست کی طرف غصے سے دیکھا تو اس نے بولا دیکھا نہ یہی چکر ہے یہ صرف لڑکیوں کے لیئے ہی ایسے بے چین ہوتا ہے ۔ میں نے کہا اب چپ کر جا اینویں اپنی بونگیاں نا مار تجھے پتا ہے میں کبھی کسی لڑکی کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوتا اور مجھے کس نے بیواقوف بنانا ہے میرا نام دیمی رنگباز ہے کسی کی لڑکی کی اتنی جرآت نہیں کہ مجھے اللو بنا سکے اسی وجہ سے ایک نہیں چھ چھ پھنسائی ہوئی ہیں ۔ اس کے بعد میرا دوست جہانگیر بولا دیکھا اب موڈ ٹھیک ہوا ہے دیمی رنگباز کا ۔ اس کے بعد ہم سارے ہنسنے لگے پر میرے دل میں واقعی میں مدیحہ کے لیئے بے چینی سی تھی بس میں اپنے دوستوں کو کچھ نہیں بتانا چاہتا تھا ہم نے آئسکریم کھائی اور گھوم پھر کر واپس گھر آگئے میرے دوست اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور میں اپنے گھر جانے لگا تو مدیحہ ہمارے گھر سے نکل رہی تھی میں نے اس کو آواز دی او ہوائی چیز اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا تم جاؤ اپنے لفنگے دوستوں کے پاس ۔ یہ کہہ کر وہ جلدی سے اپنے گھر جانے لگی اور اپنے دروازے پر جا کر اس نے ایک بار پھر سے میری طرف دیکھا اور اندر چلے گئی ۔ میں اسی جگہ کھڑے رہ کر اس کی طرف دیکھتا رہا اور بعد میں گھر چلا گیا اب شام ہونے والی تھی میں نے گھر جا کر گیلے کپڑے چینج کیئے اور کمپیوٹر پر گیم لگا کر کھیلنے لگا اتنے میں میری بھابھی ڈرے ہوئے انداز میں بیٹھک میں آئی اور انہوں نے مجھے کہا فوراً یہ کمپیوٹر چھوڑو اور میری بات غور سے سنو ۔ میں نے جلدی سے گیم بند کی اور بھابھی سے پوچھا کیا ہوا بھابھی سب خیر تو ہے یہ آپ ڈری ہوئی کیوں ہیں ؟ بھابھی نے کہا مدیحہ کے ساتھ تمہارا کیا چکر چل رہا ہے ؟ میں نے کہا میرا کیا چکر ہے اور آپ یہ کیا پوچھ رہی ہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔ بھابھی نے بولا ابھی مدیحہ میرے پاس آئی تھی اور وہ بہت رو رہی تھی جب میں نے اس سے وجہ پوچھی تو وہ بولی کہ وہ تمہیں بہت پسند کرتی ہے پر تم اس کو ہر وقت اگنور کرتے ہو ۔ میں نے بھابھی سے کہا کیا سچ میں مدیحہ نے یہ کہا آپ سے ؟؟ بھابھی نے کہا ہاں میں تو خود حیران ہو گئی ہوں اس کی یہ بات سن کر ۔ پھر میں نے بھابھی سے پوچھا کہ بھابھی اور کیا کیا کہا اس نے مجھے بتائیں ۔ بھابھی نے کہا وہ کہہ رہی تھی اس کی ایک کزن بھی تمہیں پسند کرنے لگی ہے جو ان کے گھر مہمان بن کر آئی ہے اور اس نے مدیحہ کی بہن نمرہ سے تمہارے بارے میں پوچھا یہ جو لڑکا گانے لگا کر سامنے کھڑا ہے یہ کون ہے نمرہ نے کہا یہ ہمارے ہمسائے ہیں اور بہت اچھے لوگ ہیں تو اس نے نمرہ سے کہا کہ مجھے وہ بہت پسند ہے کیا آپ مجھے ان لوگوں کے گھر لے کر جا سکتی ہیں تو نمرہ نے اس سے کہا ہاں لے جاؤ گی لیکن کل۔ کیونکہ آج بارش ہو رہی ہے اور ادھر جا کر کوئی الٹی سیدھی حرکت نہ کرنا ۔ اور مدیحہ اسی وجہ سے رو رہی تھی کہ کہیں تم اس کی کزن نازنین کو پسند نہ کر لو کل جب وہ تمہارے گھر آئے گی تو ۔ بھابھی کی یہ سب باتیں سن کر میں اور بھی زیادہ پریشان ہو گیا مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اچانک سے میرے ساتھ یہ اتنا کچھ کیسے ہو رہا ہے اور یہ نازنین کون ہے اگر وہ ان تین لڑکیوں میں تھی تو کون سی تھی ۔ بھابھی نے مجھ سے کہا دیکھو دیمی اب تم مجھے سب سچ بتا دو یہ سب کیا تماشا ہے ؟ اگر تم ان میں سے کسی کو بھی پسند کرتے ہو تو مجھے بتا دو میں کسی کو نہیں بتاؤں گی لیکن اس پھول سی لڑکی کو تنگ نہ کرو مجھے پتا ہے رات رات بھر تم اپنی سہیلیوں سے باتیں کرتے رہتے ہو کئ بار تمہارے بھائی نے تمہیں باتیں کرتے سنا ہے اور انہوں نے مجھے کہا بھی تھا یہ لڑکا کوئی گل نہ کھلا دے اور انہوں نے عاصم (یعنی میرا دوسرے نمبر والا بڑا بھائی ) بھائی کو بھی کہا تھا اس کو سمجھاؤ یہ فضول کاموں سے باز آجائے ورنہ میں اس پر سختی کروں گا ۔ میں نے کہا بھابھی میرا ان سب کاموں میں کوئی ہاتھ نہیں ہے یہ سچ ہے کہ میں مدیحہ کو پسند کرتا ہوں پر ابھی تک میں نے اس سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی مدیحہ نے مجھے کبھی مجھ سے اس بارے میں بات کی ہے ۔ میں تو یہ آپ سے سن رہا ہوں کہ وہ مجھے پسند کرتی ہے ۔ بھابھی نے حیرانی سے پوچھا کیا واقعی میں تمہیں نہیں پتا تھا ؟ کہ وہ تمہیں پسند کرتی ہے ۔ میں نے کہا بھابھی مجھ سے قسم لے لو میں اس سے بات کرنے والا تھا کہ میں اس کو پسند کرنے لگا ہوں پر میں اس سے مل نہیں پایا ۔ بھابھی نے کہا دیکھو دیمی تم میرے دیور ہو لیکن میں نے ہمیشہ تمہیں اپنا چھوٹا بھائی سمجھا ہے اور ایک بڑی بہن ہونے کے ناطے میں تم سے کہنا چاہتی ہوں کہ اگر تو تم مدیحہ کو واقعی میں پسند کرتے ہو تو میں امی کو ساتھ لے کر نمرہ سے بات کروں گی تمہارے اور مدیحہ کے رشتے کی ۔ لیکن اگر تم مدیحہ سے بھی باقی لڑکیوں کی طرح صرف دلگی کر رہے ہو تو میں نے تمہارے بھائی کو بتا دینا ہے کیونکہ مدیحہ اور اس کے گھر والے ہم پر پورا بھروسہ کرتے ہیں اسی وجہ سے وہ مدیحہ کو ہمارے گھر آنے سے نہیں روکتے اور اگر ایسے میں تم نے اگر مدیحہ سے کوئی الٹی سیدھی حرکت کی تو پورے محلے میں ہماری بدنامی ہو گی اور تمہارے بھائی کا تو تمہیں پتا ہی ہے جب انھیں غصہ آتا ہے تو وہ کیا کرتے ہیں۔تحریر دیمی ولف۔۔ ۔ میں نے کہا بھابھی میں سچ میں مدیحہ کو پسند کرتا ہوں اور میں اس سے ہی شادی کرنا چاہتا ہوں کیونکہ وہ پہلی لڑکی ہے کہ جس کو اگر میں نہیں دیکھتا تو مجھے بے چینی سی ہو جاتی ہے ۔ بھابھی نے کہا اور وہ نازنین ؟ میں نے کہا کون نازنین میں تو اسے جانتا تک نہیں ہوں ۔ بھابھی نے کہا ٹھیک ہے۔لیکن اگر اب بھی کوئی ایسی بات ہے جو تم مجھ سے چھپا رہے ہو تو مجھے بتا دو ۔ ورنہ یہ نہ ہو کہ تم اپنے ساتھ ساتھ میری بھی بے عزتی کروا دو ۔ میں نے کہا بھابھی قسم سے بس جو بتایا وہی سچ ہے ۔ بھابھی نے کہا اچھا میں کل ہی اس بارے میں امی سے بات کرتی ہوں اور اس کے بعد ہم نمرہ سے بات کریں گے لیکن تب تک تم مدیحہ کو کوئی فون وون نہ کرنا ابھی وہ بہت غصے میں گئی ہے ۔ میں نے کہا بھابھی فون تو تب کرتا جو اس کا نمبر میرے پاس ہوتا ۔ بھابھی نے کہا کیا واقعی ؟؟ میں نے کہا جی بھابھی ابھی تو میں نے اس سے سہی طرح بات بھی نہیں کی ۔ بھابھی نے کہا ارے واہ کیا بات ہے یہ تو کمال ہی ہو گیا دیمی رنگباز صاحب کا تو پہلا کام ہی پہلی ملاقات میں سب سے لڑکی کا نمبر لینا ہی ہوتا ہے کیوں یہی کہتے ہو نا اپنے دوستوں سے ؟ میں نے کہا بھابھی اب چھوڑو بھی۔ اور یہ باتیں کہاں سے سن لیتیں ہیں بھابھی نے کہا بیٹا تم جب باہر کھڑے ہو کر اپنے لفنگے دوستوں سے باتیں کر رہے ہوتے ہو تو گھر تک تمھاری آوازیں آرہی ہوتیں ہیں اور تمہارے بھائی بھی کبھی کبھی یہ سب سن رہے ہوتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ وہ مسکرا کر بات تال دیتے ہیں لیکن وہ تم سے بے خبر نہیں ہیں کیونکہ وہ تمہیں اپنا چھوٹا بھائی نہیں بلکہ بیٹا سمجھتے ہیں جب سے تمہارے بابا فوت ہوئے ہیں تب سے ہی وہ تم دونوں چھوٹے بھائیوں کو اپنا بیٹا ہی سمجھتے ہیں ۔ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے بھابھی اب آپ جلدی سے امی سے بات کرو اور بھابھی ایک اور ریکوئسٹ ہے ۔ بھابھی نے کہا ہاں بولو میرے چھوٹو ؟ میں نے شرماتے ہوئے کہا بھابھی اگر مدیحہ آئے تو اس سے نمبر تو لے دینا ۔ بھابھی نے میری طرف غصے سے دیکھا اور بولی میں یہ سب نہیں کروں گی۔۔۔ لیکن ہاں اگر وہ تمہارے پاس گانے کاپی کر وانے آئے تو تم خود نمبر لینے میں ماہر ہو میرے چھوٹو جناب دیمی رنگباز صاحب ۔یہ کہہ کر بھابھی مسکراتے ہوئے چلی گئی ۔ اور ان کے جاتے ہی میں بھی مسکرانے لگا کیونکہ بھابھی نے مجھے ایک ترکیب بتا دی تھی نمبر لینے کی ۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ اگر مدیحہ میرے پاس گانے کروانے آئے گی تو میں نمبر لے ہی لوں گا ۔ اگلے دن جب میں کالج سے واپس آیا تو ہمارے گھر میں نمرہ اور اس کے ساتھ وہی تین لڑکیاں بھابھی کے ساتھ چائے پی رہی تھیں میں فوراً اپنی چھت پر چلا گیا اور کچھ ہی دیر میں مدیحہ بھی اپنی چھت پر آگئ میں نے جب اس کو دیکھا تو میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا میں اس سے بات کرنا چاہ رہا تھا جب اس کی نظر مجھ پہ پڑی تو اس نے پھر سے مجھے منہ چڑھایا اور تھوڑی مسکرائی بھی میں نے بھی مسکرا کر کہا او ہوائی چیز زرا پاس آکر بات سنو ۔ مدیحہ نے دور سے سر نا میں ہلاتے ہوئے کہا نہیں تم جاؤ نیچے تم سے کوئی ملنے آیا ہے تمہارے گھر ۔ میں نے غصے سے کہا یار وہ جو بھی ہیں میری طرف سے بھاڑ میں جائیں مجھے صرف تم سے بات کرنی ہے ۔ مدیحہ نے کہا پاگل تو نہیں ہو تم میری آپی کو بھی بھاڑ میں ڈال رہے ہو ۔ میں نے کہا اچھا یار سوری میں نے تمہاری آپی کو نہیں بلکہ وہ تین شرارتی لڑکیوں کو کہا ہے ۔ مدیحہ نے کہا کیوں کل تو تم بڑا آنکھیں پھاڑے اس کو بارش میں کھیلتا دیکھ رہے تھے تمہاری تو آنکھیں ان کی طرف جم گئیں تھیں اور تمہیں میں کھڑی ہوئی نظر ہی نہیں آرہی تھی نا اب تم جاؤ انہیں کے پاس ویسے بھی ان میں سے ایک تمہیں بہت پسند کرنے لگی ہے جو کل تمہیں پونی کا تعنہ دے رہی تھی اور تم اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے میں نے سب دیکھا تھا ۔ میں نے کہا یار وہ کون ہیں میں نہیں جانتا اور اگر ان میں سے کوئی مجھے پسند کرتا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے ۔اور ویسے بھی میں نے کون سا اس کو آئی لو یو بول دیا ہے ۔ مدیحہ نے کہا اگر نہیں بولا تو بول دو نا جا کر وہ تو آپی کو لے کر ہی اسی وجہ سے آئی ہے تمہارے گھر مجھے کیا صفائیاں دے رہے ہو ۔ یہ سن کر مجھے غصہ آگیا اور میں نے مدیحہ کو غصے سے کہا ہاں تو بول دوں گا اس میں مجھے تمہارے مشورے کی ضرورت نہیں ۔ مدیحہ نے کہا ہاں ہاں جاؤ ویسے بھی میں تمہیں پسند کرتی تھی پر مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ تم کسی اور کو دیکھتے ہی پسند کرلو گے میں تو پاگل تھی جو تمہیں پہلی نظر میں ہی پسند کرنے لگی تھی اور روز تمہیں ہی دیکھتی تھی اسی وجہ سے میں روز آپی سے کوئی نہ کوئی بہانا بنا کر کر تمہارے گھر آتی تھی اور تم صرف ہمیشہ مجھے سے چڑھ کر ہی بات کرتے ہو۔ کبھی تمہیں یہ احساس نہیں ہوا کہ میں کیوں تم سے اتنا فری ہو رہی ہوں اور ایک لڑکی ہو کر بھی کیوں تم سے بات کرنے کی کوشش کر رہی ہوں کیونکہ مجھے تمہارا بھولا پن اچھا لگا تھا اور اسی وجہ سے میں کب تم سے پیار کرنے لگی پتا ہی نہیں چلا پر تمہیں صرف اپنے لفنگے دوست اور یہ لچھ لچھ کرتی لڑکیاں ہی پسند ہیں اس لیئے تم جاؤ اور اب میں کبھی تمہیں تنگ نہیں کرونگی یہ میرا وعدہ ہے ۔ میں نے کہا مدیحہ تم نے سہی کہا کہ تم پاگل ہو کیونکہ تم آج بھی میرے بارے میں غلط سوچ رہی ہو یہ جو لڑکیاں تمہارے گھر آئی ہیں میں ان کو جانتا تک نہیں اور تم خود ہی مجھے ان کے ساتھ جوڑنے میں لگی ہو ۔ مدیحہ نے کہا تو کیا تم نے نازنین کو اشارے نہیں کیئے تھے کل ۔ میں نے کہا یار نازنین نازنین یہ کیا رٹ لگائی ہوئی ہے او مجھے تو پتا بھی نہیں ہے کہ یہ نازنین سالی ہے کون ۔ مدیحہ نے کہا وہ جو تمہیں پونی کا بول رہی تھی اور تم بڑا مسکرا رہے تھے اس کی طرف دیکھ کر اسی وجہ سے اس نے نمرہ آپی سے کہا کہ وہ تمہیں پسند کرنے لگی ہے اور اسی نے ضد کی ہے نمرہ آپی سے کے نمرہ آپی آپ مجھے ان کے گھر یعنی کے تمہارے گھر لے کر چلے ۔ میں نے کہا دیکھو مدیحہ گزشتہ کل سے میں صرف تمہارے بارے میں ہی سوچ رہا تھا اور میں کل سارا دن تمہیں دیکھنے کےلئے ہی ادھر اُدھر پھر رہا تھا ہاں میں مانتا ہوں جب وہ لڑکی جس کا نام نازلین ہے وہ دروازے سے جھانک رہی تھی تو میں نے اس کو چھت پر آنے کا اشارہ کیا تھا کیونکہ مجھے لگا تھا کہ تم بھی اس کے ساتھ اوپر آؤ گی لیکن وہ اکیلی آئی تو میں جلدی سے نیچے آگیا تھا اس کے بعد میرے دوست مجھے ساتھ لے گئے تھے۔ مدیحہ نے کہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نازلین کو پسند نہیں کرتے ؟ میں نے کہا نہیں یار میں کیوں پسند کروں گا جب کہ میں تو صرف تم سے پیار کرنے لگا ہوں ۔ مدیحہ نے حیرت بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ذرا پھر سے کہنا تم نے کیا کہا ؟ میں نے کہا ہاں میں صرف تم سے پیار کرنے لگا ہوں اور یہ اس وقت سے ہونا شروع ہوا جب تم پہلی بار گانے کاپی کروانے آئی تھی اس وقت میں تمہیں دیکھ کر کھو گیا تھا کیونکہ جب تم ہنستی ہو تو میرے دل کو چھو لیتی ہو ۔ اور تمہیں نہیں معلوم میں تمہارے لیئے کتنا بے چین ہوا ہوں اور پتا ہے جب بھابھی نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا کہ تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہو تو اس کے بعد بے چینی اور ذیادہ ہو گئی ہے ۔ مدیحہ بھولی سی صورت بنا کر میری طرف دیکھی جا رہی تھی کچھ بول نہیں رہی تھی اور وہ میرے اتنے قریب آکر کھڑی ہو گئی تھی کے اس کے اور میرے درمیان صرف چار انچ کی دیوار کا فاصلہ رہ گیا تھا اور اتنے پاس سے وہ اور بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی اور میں اس کی آنکھوں میں اپنے چہرے کو آسانی سے دیکھ رہا تھا اتنے میں ہماری سیڑھیوں پر کسی کے اوپر آتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی میں جلدی سے باہری دیوار کی طرف چلا گیا اور مدیحہ جلدی سے اپنی سیڑھیوں کی طرف چلی گئی اور جب میں نے پیچھے کی طرف دیکھا تو وہ وہی لڑکی تھی جس کو میں نے گزشتہ روز اشارے سے چھت پر بلایا تھا ۔ اس نے آکر مجھے سلام کیا میں نے سلام کا جواب دیا اور نیچے کی طرف جانے لگا تبھی اس نے مجھے آواز دی رکو ۔۔ میں نے بولا مجھے کام ہے میں نہیں رک سکتا ۔ یہ کہہ کر میں فوراً نیچے چلا گیا اور باہر اپنے دوستوں کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا ۔ کافی دیر کے بعد نمرہ اور وہ تین لڑکیاں ہمارے گھر سے باہر نکلیں اور اپنے گھر چلے گئیں ۔ میں جلدی سے بھابھی کے پاس گیا اور بھابھی سے پوچھا کہ کوئی بات کی نمرہ آپی کے ساتھ ؟ بھابھی نے کہا پاگل تو نہیں ہو نمرہ کے ساتھ نمرہ کی کزنس بھی تھی اس وجہ سے میں نے ابھی کوئی بات نہیں کی اس کے ساتھ لیکن تم حوصلہ رکھو میں کر لوں گی اس سے بات۔ اس کے بھابھی اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی اور میں واپس کمپوٹر پر بیٹھ کر گانے لگا کر سننے لگا ۔ اور دل ہی دل میں مسکرانے لگا کیونکہ اب مدیحہ کو میں نے اپنے دل کی بات بتا دی تھی ۔ اب مجھے صرف اس کا نمبر لینا تھا اور اس کے لیئے میرا ایک بار پھر سے مدیحہ سے اکیلے میں ملنا ضروری ہو چکا تھا میں ابھی اسی بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک سے مجھے مدیحہ کی آواز اپنے گھر میں سنائی دی میں نے جلدی سے جاکر دیکھا تو مدیحہ ہاتھ میں تھرمس پکڑے میری بھابھی سے بات کر رہی تھی اور اس کی نظر جب میری طرف ہوئی تو میں نے دروازے کے پیچھے چھپتے ہوئے اس کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا اور بیٹھک میں چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد مدیحہ چھپتی ہوئی بیٹھک میں آئی میری طرف آتے ہوئے اچانک سے میرے گلے سے لگ گئی اور اس دن زندگی میں پہلی بار میں نے اتنا کس کے کسی لڑکی کو گلے لگایا تھا میں نے کافی دیر تک اس کو گلے سے لگائے رکھا اور ہم بلکل ہی خاموش تھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے دنیا ہی تھم گئی ہے اس نے بھی مجھے اتنا کس کے پکڑا ہوا تھا جیسے کہ میں اس سے کہیں دور جانے والا ہوں اور وہ مجھے جانے نہیں دے گی ۔ تبھی بھابھی کی آواز سنائی دی ہم دو اچانک سے چونک گئے وہ مدیحہ کو بلا رہی تھی میں نے کہا مجھے اپنا نمبر تو دے دو اس نے فوراً میرا موبائل پکڑا اور اپنے نمبر پر مس کال کر دی اور بولی میں بہت مشکل سے بہانا بنا کر آئی تھی اور جب تک وہ نازلین وغیرہ گھر پر ہیں میں ان کے سامنے یہاں نہیں آسکتی کیونکہ ابھی معاملہ بہت زیادہ خراب ہے اس نازلین نے گھر میں تماشا لگایا ہوا ہے اور وہ تمہیں برا بھلا کہہ رہی تھی اور میں نے اسے کہا کہ نازلین اس میں تمہاری ہی غلطی ہے وہ لڑکا ہے اسے کسی نے کچھ نہیں کہنا لیکن تم اپنی حد میں رہو ۔ میں نے مدیحہ سے کہا یار چھوڑو اس کو وہ مجھے جو مرضی کہے تم نے اس سے کوئی بات نہیں کرنی اس بارے میں ۔ مدیحہ نے کہا لیکن نمرہ آپی بھی تمہارے بارے میں نازلین سے کہ رہیں تھیں کہ ایسے لڑکوں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا یہ بھنورے ہوتے ہیں جن کو بہت سے پھولو پر منڈلانے کا شوق ہوتا ہے اسی لیئے ان سے دور رہنے میں ہی بھلائی ہے ۔ اس کے بعد نازلین رونے لگی اور میں نے نمرہ آپی سے کہا میں چائے بنا کر لاتی ہوں تو نمرہ آپی نے مجھے بھی کہا کہ مدیحہ تم بھی اب ذرا کم جایا کرو ادھر میں نہیں چاہتی کہ کل کو تم بھی کوئی گل کھلا لو ۔ اس وجہ سے میں تم سے کچھ دن دور رہوں گی جب وہ لوگ اپنے گھر چلے جائیں گے تو میں تم سے ملنے آجایا کروں گی اور ایک بات یاد رکھنا میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں مجھے کبھی دھوکا مت دینا ورنہ میں اتنی جزباتی ہوں کہ مر جاؤں گی اگر تم نے مجھے دھوکا دیا تو ۔ میں نے مدیحہ کو پھر سے گلے لگا کر کہا یار میں رنگباز ضرور ہوں لیکن تم سے سچ میں بہت پیار کرتا ہوں اور میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا ۔ اتنے میں بھابھی بھی بیٹھک میں آگئ اور بولیں اگر لیلہ مجنوں کی باتیں ختم ہوگئی ہیں تو مدیحہ تم میرے ساتھ چلو کچھ بات کرنی ہے اس کے بعد بھابھی مدیحہ کو لے کر چلی گئیں اور میں نے جلدی سے اپنے موبائل میں مدیحہ کا نمبر سیف کر لیا اور باہر دوستوں کے ساتھ گھومنے چلا گیا اور رات کو واپس آکر پہلی بار مدیحہ سے فون پر بات کی ہم دونوں رات تین بجے تک بات کرتے رہے اس کے بعد میں نے بولا مجھے نیند نہیں آرہی مجھے تم سے ملنا ہے تم چھت پر آجاؤ میں بھی جاتا ہوں مدیحہ نے کہا تم پاگل ہو اگر کوئی جاگ گیا نہ تو میری خیر نہیں ۔ میں نے مدیحہ سے بولا یار کچھ دیر کے لیئے آجاؤ مجھے تمہاری بہت یاد آرہی ہے ۔ مدیحہ نے کہا اچھا میں دیکھتی ہوں میں نے جلدی سے فون بند کیا اور آرام آرام سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چھت پر چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد مدیحہ بھی آگئ اور ہم پھر سے ایک دوسرے سے ایسے گلے ملے جیسے کہ صدیوں بعد مل رہے ہوں ہم دونوں کی آنکھیں بند تھیں اور بہت سکون مل رہا تھا تبھی اتنے میں میں نے آنکھیں کھولیں تو مجھے مدیحہ کے ساتھ والے مکان میں ایک درخت تھا اس پر کسی کی چمکتی ہوئی آنکھیں نظر آئیں جو کہ ہماری طرف ہی دیکھ رہی تھیں میں نے جلدی سے مدیحہ کو کہا وہ کیا ہے جب مدیحہ نے اس طرف دیکھا تو وہ ڈر گئی اور مجھ سے لپٹے ہوئے اُدھر دیکھنے لگی اور کانپنے لگی میں نے مدیحہ سے کہا اے میری جان کیا ہوا کانپ کیوں رہی ہو مدیحہ نے کہا وہ کوئی جن بھوت ہے میں نے کہا نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی جانور ہے جو درخت پر چڑھ گیا ہے۔ مدیحہ نے کہا مجھے نیچے جانا ہے لیکن تم مجھے میری سیڑھیوں تک چھوڑ دو ۔ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے اس کے بعد میں نے دیوار پھلانگی اور مدیحہ کے ساتھ اس کی سیڑھیوں تک گیا ۔ اس نے میرے گال پر ہلکا سا بوسہ دیا اور کہا تم بھی جلدی سے نیچے چلے جاؤ وہ درخت پر واقعی میں کوئی چیز ہے۔ یہ کہہ کر مدیحہ جلدی سے نیچے چلے گئی اس کے بعد میں نے دوبارہ درخت کی طرف دیکھا تو وہ آنکھیں اور بھی بڑی ہو گئیں تھیں کیونکہ کے مدیحہ کی چھت پر سے میں اس درخت کے زیادہ قریب تھا میں نے اندھیرے میں ہی زمین پر بیٹھ کر ادھر اُدھر دیکھا مجھے ایک چھوٹا سا پتھر دیوار کے پاس نظر آیا میں نے وہ پتھر اٹھا کر اس درخت کی طرف پھینکا جو کہ سیدھا ان آنکھوں کی طرف گیا کیونکہ میں سمجھ رہا تھا کہ کوئی جانور درخت پر چڑھ گیا ہو گا کیونکہ اکثر میں نے درختوں پر بکریاں وغیرہ چڑھتے ہوئے دیکھی تھی اس وجہ سے میں اس کو بھی جانور ہی سمجھ رہا تھا لیکن جیسے ہی پتھر اس کو جا کر لگا تو اس نے ایک ایسی خوفناک چیخ ماری کے میرے پورے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں نے بنا اس کی طرف دیکھتے ہوئے جلدی سے وہاں سے اپنی چھت پر بھاگ گیا اور مجھے اپنے پیچھے بھاگتے ہوئے کسی کے پیروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن میں جلدی سے نیچے آگیا نیچے جا کر میں نے فون میں دیکھا تو مدیحہ کی دس بارہ مس کالز آئی ہوئی تھیں میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کو میسج کیا کہ جاگ رہی ہو ۔ پر اس کا کوئی جواب نہیں آیا اس کے بعد میں بھی بیٹھک سے نکل کر اپنے کمرے میں جا کر سونے لگا لیکن مجھے اچانک سے بہت ٹھنڈ لگنے لگی تھی اور مجھے ایسا لگا جیسے کے وہ چیز میرے پیچھے بھاگی تھی اور وہ ہماری سیڑھیوں تک آگئ تھی اور اس کی وہ خوفناک آواز کی سنسناہٹ میرے کانوں میں گونج رہی تھی میں نے جلدی سے اپنا منہ چادر میں چھپا لیا آنکھیں بند کیں اور سونے لگا اور کب مجھے نیند آگئی پتا نہیں چلا اگلے دن جب میں اٹھا تو فون پر مدیحہ کی پھر سے کالز آئی ہوئی تھیں میں نے فوراً اس کو میسج بھیجنا کہ کالج جا رہا ہوں آکر بات کروں گا اس کے بعد میں جلدی سے کالج کے لیئے تیار ہوا اور ناشتہ کر کے کالج چلا گیا اور وہاں بھی ٹائم نکال کر میں مدیحہ سے میسج پر بات کرتا رہا ۔ بارہ بجے اور میں کالج سے گھر آگیا اور چھت پر چلا گیا اس دوران میں نے مدیحہ کو بھی چھت پر آنے کا بولا اس نے کہا تم جاؤ میں تھوڑی دیر تک آتی ہوں میں نے مدیحہ کی چھت پر جا کر سب سے پہلے اس درخت کی طرف دیکھا تو تھوڑا عجیب سا لگ رہا تھا کیونکہ اس درخت پر کوئی پتا نہیں تھا بس بنا پتوں والی شاخیں ہی تھیں اور جن کے گھر وہ درخت لگا ہوا تھا وہ اس گھر میں شفٹ ہی نہیں ہوئے تھے بس کبھی کبھی کچھ لوگ آتے تھے اس گھر کو دیکھتے اور پھر سے تالا لگا کر چلے جاتے تھے شاید یہ گھر انہوں نے بیچنے کے لیئے لگایا ہوا تھا اور صحن میں لگا درخت بہت ہی زیادہ اونچا تھا لیکن اس پر کبھی میں نے پتے نہیں دیکھے تھے کوئی کہتا تھا اس پر بجلی گری ہے کوئی کہتا تھا اس پر بسیرا ہے بس اسی طرح کی باتیں کرتے تھے لوگ اس درخت کو لے کر۔ میں نے درخت کو غور سے دیکھا اور اپنی چھت پر واپس آگیا اتنے میں مدیحہ بھی اوپر آگئ اور ساتھ میں وہ تین شرارتی لڑکیاں بھی اوپر آگئیں
No comments:
Post a Comment