نایاب ۔۔۔! ایک شیطانی طاقت : ایک اور ناقابل یقین سچ 1

 نایاب ۔۔۔! ایک شیطانی طاقت

ایک اور ناقابل یقین سچ


2002 کی بات ہے کہ ایک زور ہمارے کچھ عزیز رشتے دار حیدرآباد سے آئے سکولوں کی چھٹیاں ہوئیں تو یہ لوگ چھٹیاں گزارنے کے لیئے لاہور آگئے کیونکہ ان کے زیادہ تر رشتدار لاہور میں رہتے تھے تو اس وجہ سے وہ سال میں ایک بار سب رشتےداروں سے ملنے لاہور آیا کرتے تھے ان میں ایک میرے انکل فاروق میری آنٹی شاہدہ اور ساتھ میں تین بچے تھے جو کہ تین بہن بھائی تھے اور ان تینوں میں سب سے بڑا واجد اس سے چھوٹا ماجد اور اس سے چھوٹی بہن نایاب تھی ۔ نایاب ایک خوش مزاج نہایت خوبصورت اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی اور وہ پڑھائی میں بھی اپنے ان دونوں بھائیوں سے زیادہ قابل تھی اور وہ سارا سارا دن اکیلی اور الگ تھلگ بیٹھ کر صرف کتابوں میں مصروف رہا کرتی تھی ۔ واجد اور ماجد تھوڑے ہنس مکھ اور شرارتی قسم کے تھے اور وہ میری عمر کے ہی تھے ۔ ویسے تو یہ لوگ ہر سال لاہور آتے تھے لیکن ان کی خواہش تھی کہ اس بار لاہور کی نہر میں نہانا ہے اور ایک دن واجد نے کہا دیمی بھائی آپ کے گھر کے پاس نہر ہے ہمیں نہر پر ہی لے جاؤ گرمی بھی بڑی ہے اور ہمیں نہر میں نہانا ہے پھر تو ایک سال بعد ہی ہم نے آنا ہے اور ہم نے سنا ہے لاہور کی نہر پر بہت زیادہ ہلہ گلہ ہوتا ہے اور نہر پر بہت سی لڑکیاں بھی آئی ہوتی ہیں اس وجہ سے ہمیں اور کسی جگہ کی سیر کرانے سے پہلے ہمیں نہر پر لے چلو اس کے بعد ہی ہم کہیں گھومے پھریں گے ۔ میں نے کہا یار یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے میں تو اکثر دوستوں کے ساتھ جاتا رہتا ہوں ۔ واجد نے کہا تو پھر دیر کس بات کی ہے بھائی چلو چلتے ہیں میں تو ابھی سے ہی بڑا اکسائٹڈ ہو رہا ہوں ۔ میں نے کہا تم صرف کچھ دیر انتظار کرو میں ابھی اپنے دوست کو بولتا ہوں اس کے پاس گاڑی ہے ہم اس کی گاڑی میں چلتے ہیں اور کچھ دوستوں کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں تاکہ خوب ہلہ گلہ کریں ۔ ماجد نے اچھلتے ہوئے کہا یس ۔۔۔ پھر تو مزہ ہی آجائے گا آج ہم بہت سے دوستوں کے ساتھ نہر پر جائیں گے اور آج پہلی بار ہم لاہور کی نہر میں نہائیں گے۔ میں ان کی نہر کے لیئے اتنی اکسائیٹمنٹ کو دیکھ کر ہنس رہا تھا پھر میں نے اپنے ایک دوست سمی ڈان کو فون کیا اس کا اصل نام تو سمی تھا پر وہ کہتا تھا دیمی ولف کی طرح میرا بھی کوئی نام ہونا چاہیے تو ہم نے اس کا نام) ایس ڈی) رکھ دیا جس سے وہ بہت خوش ہوا اور وہ آئے روز ہم سب دوستوں کو نہر اور کار ریسنگ پر جانے کی دعوت دینے آیا کرتا تھا اور ہم سب اس کی گاڑی بہت زیادہ گھوما پھرتے تھے ہم لوگ دوپہر میں نکلتے اور پھر رات 10 بجے تک گھر آیا کرتے تھے ۔ میں نے سمی کو فون کرکے کے گھر بلایا اور اس کو کہا گاڑی لے کر آئے اور ساتھ میں باقی دوستوں کو بھی بتا دے ۔ سمی نے کہا ٹھیک ہے میں بس کچھ ہی دیر میں آتا ہوں ۔اس کے بعد واجد ماجد نے اپنے امی ابو کو بتایا کہ ہم دیمی بھائی کے ساتھ نہر پر جاریے ہیں یہ سنتے ہی نایاب نے کہا کیا میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ چل سکتی ہوں ۔۔۔۔؟؟؟ واجد نے کہا نہیں نہیں تم نہیں آسکتی ہمارے ساتھ ہم سب لڑکے لڑکے ہی جاریے ہیں بس اور تم تو لڑکی ہو۔ جاؤ جا کر اپنی کتابیں پڑھو ۔ پھر نایاب نے مجھے کہا دیمی بھائی کیا آپ مجھے بھی لے جائیں گے اپنے ساتھ ؟ میں نے کہا نایاب واجد سہی کہہ رہا ہے تم لڑکی ہو اور تمہیں ہمارے ساتھ نہیں آنا چاہیے۔ نایاب نے کہا ٹھیک ہے ایک لڑکی آپ لوگوں کے ساتھ نہیں جا سکتی پر ایک بہن تو اپنے بھائیوں کے ساتھ جا سکتی ہے نا اور ویسے بھی آپ لوگ اور آپ کے ساتھ جانے والے دوست میرے بھائی ہی ہیں اور میں وعدہ کرتی ہوں میں آپ لوگوں سے دور ہی رہوں گی نہر کے پاس پارک بھی تو ہوتے ہیں میں وہاں ہی بیٹھ جاؤں گی کیونکہ میں یہاں بہت بور ہو رہی ہوں پلیز دیمی بھائی میرا بہت دل چاہ رہا ہے کہ میں بھی نہر پر جاؤں آپ لوگوں کے ساتھ ۔ اتنے میں نایاب کی امی نے کہا ارے بیٹا لے جاؤ نا ۔ دیکھو نا تمہاری بہن کتنی منتیں کر رہی ہے ؟؟۔ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے آنٹی اتنے میں باہر سے گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی ۔ میں نے باہر جا کر دیکھا تو ایس ڈی گاڑی لے کر آگیا تھا ۔ میں نے فوراً واجد ماجد اور نایاب کو کہا چلو بھئی سب جلدی سے گاڑی میں بیٹھو اس کے بعد کچھ اور دوست بھی اپنی بائیکوں پر آگئے اور جب انہوں نے نایاب کو گاڑی میں بیٹھے دیکھا تو بولے ارے ولف یار یہ لڑکی کو کیوں ساتھ لے کر جاریے ہو ؟؟ کون ہے یہ ؟؟ میں نے کہا یہ میری کزن ہے اور یہ بھی ہمارے ساتھ چل رہی ہے میری یہ بات سن کر پھر کچھ دوستوں نے ناراضگی ظاہر کی اور کچھ نے کہا اچھا ٹھیک ہے۔ پھر جو دوست اعتراض کر رہے تھے میں نے ان سے کہا یار یہ لڑکی ہماری بہن ہے اور ہم اس کو ساتھ لے کر جانے والے ہیں اور ویسے بھی گرمی ہے اور لائٹ بھی نہیں ہے چلو اسی بہانے سے یہ بھی تھوڑا گھوم لے گی اس لیئے اس کو بھی ہمارے ساتھ آنے دو اور ویسے بھی یہ وہاں پارک میں ایک سائیڈ پر بیٹھی اپنی کتابیں پڑھتی رہے گی اور ہم لوگ نہر میں نہا نے چلے جائیں گے۔ انہوں نے کہا اچھا ٹھیک ہے اب چلو۔۔ اس کے بعد ہم سب نہر پر چلے گئے وہاں پہنچ کر سب سے پہلے ہم نایاب کو ایک پارک میں چھوڑ آئے جو کہ پاس میں ہی تھا نایاب نے اپنی کتاب کھولی اور ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ کر پڑھنے لگی اور ہم سب نہر میں نہانے کے لئے چلے گئے وہاں ہم نے بہت انجوائے کیا واجد اور ماجد نے بھی خوب ہلہ گلہ کیا اور میرے دوستوں سے گھل مل گئے تھوڑی دیر کے بعد سب نے قیمے والے نان اڑائے اور میں دو نان لے کر نایاب کو دینے گیا تو وہ اپنی کتاب میں اس قدر مصروف تھی کہ میرے دو تین بار آواز دینے سے بھی اس کو احساس نہ ہوا کہ اس کو میں نے آواز دی ہے میں نے جلدی سے جا کر نان اس کے آگے رکھ دیئے اور وہ اچانک چونک گئی میں نے کہا ارے اسے بعد میں پڑھ لینا پہلے یہ کھا لو اور میں اب واپس دوستوں کے پاس جا رہا ہوں۔ نایاب نے کہا ٹھیک ہے ۔ پھر میں وہاں سے واپس دوستوں کے پاس چلا گیا کافی دیر موج مستی کرنے کے بعد جب شام ہو گئی تو واجد نے کہا دیمی بھائی اب ہمیں گھر چلنا چاہیے آج تو بہت ہی زیادہ انجوائے کیا ہے ہم نے قسم سے دل خوش ہو گیا ہے ہمارا ۔۔۔۔ واقعی میں لاہور لاہور ہی ہے اور یہاں کے لوگ تو بہت ہی کمال کے ہیںَ اور آپ کے دوستوں سے ملنے کے بعد ہمیں لگا ہی نہیں کہ ہم لوگ پہلی بار ملیں ہیں اور اس سے پہلے ایسا انجوائے کبھی ہم نے حیدرآباد میں بھی نہیں کیا جبکہ ہمارے وہاں بہت سے دوست ہیں ۔ میں نے کہا ارے ابھی تو انجوائے کیا ہی نہیں ہے ابھی تو تم لوگوں کو فوٹرس بھی لے کر جانا ہے وہاں انجوائے کرانا ہے اس کے بعد چمن سے آئسکریم بھی کھلانی ہے اور پھر ایس ڈی کی ڈرائیونگ بھی دیکھانی ہے اور مجھے یقین ہے ایسا ریسر تم نے پہلے نہیں دیکھا ہو گا۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں نایاب کو گھر چھوڑ کر جانا ہوگا کیونکہ آگے کے انجوائے میں ہم کسی لڑکی کو شامل نہیں کر سکتے اور لڑکی بھی وہ جو کہ ہماری بہن ہے اور ہم اس کو اپنے ساتھ کسی پنگے میں نہیں گھسیٹ سکتے کیونکہ اکثر ہماری لڑائی بھی ہو جاتی ہے وہاں ریسر سے ۔ اتنے میں میرا ایک دوست سنی بولا ارے ولف آج تو بڑی غیرت آرہی ہے سالے جب دوستوں کے ساتھ تو صائمہ کو لے کر گھومتا تھا اور ہم کہتے تھے کہ کوئی لڑکی نہیں جائے گی ہمارے ساتھ تو اس لڑکی کے لیئے تو ہم سے ناراض ہو جاتا تھا ؟؟۔ میں نے کہا ارے شیطان وہ میری دوست تھی اور یہ میری بہن ہے سالے پتا نہیں کب عقل آنی ہے تجھے ۔ واجد نے کہا ٹھیک ہے ہم نایاب کو گھر چھوڑ کر نکل جائیں گے ویسے بھی میں تو اس کے یہاں ہمارے ساتھ آنے پر بھی راضی نہیں تھا دیمی بھائی ۔ میں نے کہا یار کوئی بات نہیں بیچاری گھر میں بور ہو رہی تھی اس لیئے اس کو آنٹی کے کہنے پر لے آیا تھا ۔ ابھی میں یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا کہ یار نایاب تو ابھی تک پارک میں ہے ۔ میں نے دوستوں سے کہا یار میں نایاب کو لے کر آتا ہوں پھر ہم نکلتے ہیں یہاں سے ۔ یہ کہہ کر میں نایاب کو لینے پارک میں گیا تو وہ وہاں نہیں تھی میں جلدی سے اس درخت کی طرف بڑھ رہا تھا کہ جس کے سائے تلے میں نایاب کو چھوڑ کر گیا تھا لیکن وہ مجھے اس درخت کے نیچے نظر نہیں آرہی تھی اور جب میں اس درخت کے پاس پہنچا تو وہ واقعی میں وہاں نہیں تھی میں نے ادھر اُدھر دیکھا پر مجھے نایاب کہیں دیکھائی نہیں دی یہ دیکھ کر اچانک میں پریشان ہو گیا میں نے بہت بار ادھر اُدھر جا کر آوازیں دیں پر نایاب کا کوئی جواب نہیں آیا میں واپس اس درخت کے نیچے جا کر کھڑا ہوگیا اتنے میں مجھے کسی کے ہنسنے کی آواز سنائی دی میں نے ادھر اُدھر دیکھا پر میرے علاوہ اس جگہ پر کوئی نہیں تھا میں تھوڑا سا ڈر گیا تھا کیونکہ میں پہلے بھی ایسی بہت سی چیزوں سے اور ایسی ہنسی سے واقف تھا لیکن میں بس یہ چاہ رہا تھا کہ اب دوبارہ ایسا ویسا کچھ مت ہو میرے ساتھ اور بس کسی بھی طرح سے نایاب مجھے مل جائے ورنہ گھر جا کر میں کیا کہوں گا ۔ ابھی میرے ذہن میں ایسے خیالات آرہے تھے کہ اچانک میرے سر پر کوئی چیز گری میں نے سر پر ہاتھ پھیرا تو میری انگلیاں گیلی ہو گئیں اور جب میں نے اپنی انگلیوں کو دیکھا تو میری جان ہی نکل گئی کیونکہ میری انگلیوں پر خون لگا ہوا تھا میں نے گھبرا کر اوپر دیکھا تو نایاب درخت کی ایک ڈال پر بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے ہاتھ سے بہت جون نکل رہا تھا اور وہ اپنا ہاتھ اپنے منہ میں رکھ کر بری طرح سے چبا رہی تھی میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس کو آواز دی نایاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا میں نے تھوڑا اونچی آواز میں پھر سے اس کو آواز دی تو اس نے میری طرف اتنے غصے سے دیکھا کہ جیسے یہ مجھے کھا ہی جائے گی اس کا پورا منہ خون سے آلود ہوا تھا کہ جیسے نایاب کوئی آدم خور ہو ۔ اسے دیکھتے ہی میں تھوڑا سا ڈر گیا اور اس درخت کے نیچے سے پیچھے ہٹ گیا اتنے میں نایاب نے عجیب سا کام کیا وہ درخت سے ایسے نیچے اتری کہ اس کے پاؤں اوپر کی طرف تھے اور اس کے ہاتھ نیچے کی طرف تھے وہ کسی چھپکلی کی طرح درخت سے لپٹ کر رینگتے ہوئے نیچے آگئ ۔ اسے ایسا کرتے دیکھ کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ اور میں نے جلدی سے جا کر واجد اور اپنے دوستوں کو کہا یار جلدی چلو نایاب کو کچھ ہو گیا ہے۔ یہ سنتے ہی وہ سب میرے ساتھ بھاگتے ہوئے نایاب کی طرف گئے اور جیسے ہی ہم دوبارہ نایاب کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ نایاب اسی درخت کے نیچے بیٹھی اپنے زخمی ہاتھ کو پکڑ کر رو رہی تھی اور اس کے ہاتھ سے بہت خون نکل رہا تھا ۔ یہ دیکھتے ہی واجد نے جلدی سے نایاب کا ہاتھ پکڑ کر اس سے پوچھا نایاب یہ کیا ہوا۔۔؟؟ کیسے ہوا ....؟؟ نایاب نے روتے ہوئے کہا میں یہاں بیٹھ کر کتاب پڑھ رہی تھی کہ اچانک ایک عورت کہیں سے آکر میرے پاس بیٹھ گی اور وہ کچھ دیر میری طرف دیکھتی رہی پھر اچانک اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے منہ سے چبا ڈالا۔ اس کے بعد کیا ہوا مجھے نہیں پتا میں سو گئی تھی شاید۔۔لیکن یہ دیکھو بھائی میرا ہاتھ کتنا زخمی ہو گیا ہے۔یہ سنتے ہی میں بہت حیران ہوا میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ کیا ہوا ہے جبکہ میں نے خود نایاب کو درخت پر دیکھا تھا۔ پھر میں نے اپنے دوستوں کو کہا یار دیکھو زرا ڈھونڈو اُس پاگل عورت کو وہ یہی کہیں ہو گی۔ میری یہ بات سنتے ہی میرے دوست ادھر اُدھر پھیل گئے اور اس عورت کو ڈھونڈنے لگے ۔ اور میں بھی جا کر نایاب کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے حیرت سے نایاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا نایاب تو پھر تم درخت کے اوپر کیسے چڑھ گئ تھی ؟ نایاب نے حیرانی سے کہا کیا۔۔۔۔۔؟؟؟ درخت پر۔۔۔۔؟؟ نہیں میں تو ادھر ہی بیٹھی ہوئی تھی درخت پر کیسے چڑھ سکتی ہوں؟؟۔ یہ سنتے ہی واجد نے میری طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا دیمی بھائی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ درخت کے اوپر چڑھی ہوئی تھی ؟؟؟ میں نے کہا ہاں جب میں نایاب کو لینے آیا تھا تو یہ درخت پر چڑھ کر بیٹھی ہوئی تھی اور یہ خود اپنے منہ سے اپنے ہاتھ کو چبا رہی تھی ۔ یہ سنتے ہی واجد نے میری طرف دیکھا اور پھر درخت کو غور سے دیکھنے کے بعد مجھ سے کہا ۔ دیمی بھائی آپ اس درخت کو دیکھ رہے ہیں اس پر تو ہم سے بھی نہیں چڑھا جائے گا پھر یہ کیسے چڑھ سکتی ہے اس سے تو چار فٹ کی دیوار پر بھی نہیں چڑھا جاتا ۔ میں نے واجد سے کہا یار پر میں نے اسے خود دیکھا تھا ۔ اتنے سارے دوست ہماری طرف آئے اور بولے یار ہم نے تو ہر جگہ دیکھ لیا لیکن یہاں کوئی عورت نہیں ہے ۔ میں نے کہا اچھا چلو سب باتیں چھوڑو پہلے نایاب کو ڈاکٹر کے پاس لے کر چلتے ہیں ۔ اس کے بعد ہم سب دوست وہاں سے چلے آئے اور فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جا کر نایاب کی مرہم پٹی کرائی اور اس کو گھر لے کر چلے گئے گھر والوں نے جب نایاب کے ہاتھ کے بارے میں پوچھا تو واجد نے کہا یہ کہیں سے گر گئی تھی اس وجہ سے اس کے ہاتھ پر چوٹ لگ گئی لیکن اب یہ ٹھیک ہے آنٹی نے نایاب سے پوچھا بیٹی زیادہ چوٹ تو نہیں آئی ۔ نایاب نے اپنی امی کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا اور وہ کمرے کی طرف جانے لگی ۔ یہ دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر اس کو کیا ہوا اس دوران آنٹی بھی اس کی طرف دیکھتی رہیں پر نایاب نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور کمرے میں چلی گئی ۔ اتنے میں آنٹی نے انکل کی طرف دیکھا اور انہوں نے آپس میں اشاروں سے ایک دوسرے سے کچھ کہا پھر آنٹی کی آنکھوں میں آنسوں آگئے میں نے آنٹی سے پوچھا آنٹی کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں؟؟ انہوں نے چونک کر کہا کچھ نہیں کچھ نہیں بیٹا اتنے میں انکل نے بھی کہا ارے نہیں نہیں بیٹا کچھ نہیں ہوا ہے یہ تو بس ایسے ہی اپنی بیٹی کو دکھ میں دیکھ کر رونے لگ جاتی ہے اس کو پتا ہی نہیں لگتا کہیں پر بھی رونے دھونے لگ جاتی ہے یہ کہتے ہوئے انکل آنٹی کی طرف تھوڑا غصے سے دیکھ رہے تھے ۔ میں نے آنٹی سے کہا آنٹی کوئی بات نہیں میں دیکھ کر آتا ہوں آپ پریشان نہ ہوں ۔ یہ کہہ کر میں نایاب کو دیکھنے چلا گیا اور جب میں نے کمرے میں جا کر دیکھا تو جگہ جگہ کتابوں کے صفحات بکھرے پڑے تھے جیسے کہ کسی نے کتاب کے پرخچے اڑا دیئے ہوں اور نایاب اپنے بالوں کو کھول کر دیوار کی طرف منہ کرکے کے بیٹھی ہوئی تھی اور ایسے لمبے لمبے سانس لے رہی تھی کہ جیسے کوئی سوتے ہوئے خراٹے لے رہا ہو میں نے اس کو آواز دی تو وہ میری طرف بنا دیکھے ہی بھاری سی آواز میں بولی چلے جاؤ یہاں سے ورنہ میں تمہارا وہ حال کروں گی کہ تم چلنے پھرنے کے لائق نہیں رہو گے ۔ میں نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو مجھے پتا چل گیا تھا کہ کچھ تو ہوا ہے نایاب کے ساتھ ورنہ یہ تو کتابوں سے بہت پیار کرتی ہے ۔ میں نے اس ٹائم وہاں سے جانے میں ہی بھلائی سمجھی اور واپس آکر واجد وغیرہ کے ساتھ بیٹھ گیا واجد نے کہا سوری دیمی بھائی آج ہماری وجہ سے آپ کے دوستوں کا مزہ بھی خراب ہو گیا ۔ میں نے کہا نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں ہم پھر سے چلیں گے ۔ اتنے میں رات کا کھانا لگ گیا سب لوگ کھانا کھانے کے لیئے بیٹھ گئے لیکن نایاب نہیں آئی۔ میری امی نے کہا ارے سب لوگ آگئے نایاب کدھر رہ گئی ہے ؟ ماجد نے کہا آنٹی میں بلا کر لاتا ہوں ۔ یہ کہہ کر ماجد نایاب کو بلانے چلا گیا ہم لوگ کھانا کھانے لگے اتنے میں ماجد بھاگتا ہوا نیچے آیا سب نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا اس کی سانسیں پھول رہی تھیں ماجد کے ابو نے کہا تمہیں کیا ہوا یہ کیا بھاگ دوڑ لگائی ہوئی ہے ؟ اور نایاب کہاں ہے ؟ ماجد نے کوئی جواب نہ دیا بس اپنے ابو کی طرف دیکھتا رہا انکل نے کہا ارے کھڑے کھڑے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو بتاتے کیوں نہیں نایاب کہاں ہے ؟؟ اسے لے کر کیوں نہیں آئے؟؟ماجد نے چونک کر کہا جی جی ابو وہ نایاب نہیں آرہی ہے انکل نے کہا وہ کیوں ؟ کیا ہوا اسے ؟ ماجد نے کہا ابو اس نے مجھے دیکھ کر دروازہ بند کر دیا ہے وہ غصے میں ہے ۔ اتنے میں آنٹی نے کہا اچھا ٹھیک ہے ابھی اس کو مت بلاؤ وہ ایسی ہی ہے جب وہ کتاب پڑھتی ہے تو کسی کی نہیں سنتی اور کمرہ بند کر کے رکھتی ہے چلو آؤ تم بیٹھ کر کھانا کھاؤ وہ کھالے گی بعد میں ۔ پھر سب کھانا کھانے لگے ۔اس دوران میں ماجد کی طرف دیکھ رہا تھا کیونکہ وہ بہت ڈرا ہوا لگ رہا تھا لیکن میں نے سوچا اس کو بعد میں پوچھتا ہوں آخر ہوا کیا تھا ۔جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو ماجد ٹی وی دیکھ رہا تھا میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور ماجد سے پوچھا ماجد کیا ہوا تھا تم جب نایاب کو بلانے گئے تھے تو تم ڈرے ہوئے کیوں تھے؟؟ ماجد نے پہلے دائیں بائیں دیکھا اور پھر آرام سے میرے قریب آ کر بولا دیمی بھائی وہ نایاب نہیں تھی ۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا ؟؟؟؟؟؟ ماجد نے کہا ہاں دیمی بھائی جب میں نایاب کو بلانے اس کے کمرے کے پاس گیا تو وہ زمین پر ایسے لیٹی ہوئی تھی جیسے کوئی لاش پڑی ہو بالکل سیدھی اور چھت کی طرف دیکھ رہی تھی میں نے اس کو آواز دی کہ نایاب چلو آجاؤ سب کھانے کے کے لیئے بلاریے ہیں تو اس نے لیٹے ہوئے ہی جب میری طرف دیکھا تو اس کی شکل بہت عجیب سی تھی جیسے کوئی زیادہ عمر کی عورت ہو اور بہت ہی زیادہ غصے سے دیکھ رہی تھی میں دروازے کے باہر ہی کھڑا تھا کہ پتا نہیں کیسے دروازا جھٹ سے خودبخود بند ہو گیا جیسے کسی نے غصے سے اک دم سے بند کر دیا ہو جبکہ نایاب تو اسی جگہ لیٹی ہوئی تھی میں دروازا کھولنے کے لیئے آگے ہی بڑا تھا کہ اچانک ایک خوفناک سی آواز اندر سے آئی جیسے کسی نے مجھے بھاری سی آواز میں کہا ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔ تو میں جلدی سے نیچے کی طرف بھاگا دیمی بھائی مجھے لگتا ہے نایاب اب نایاب نہیں ہے کیونکہ کہ میری بہن تو چھوٹی ہے پر جب میں نے اس کو دیکھا تھا تو وہ کافی عمر کی لگ رہی تھی ۔ جب ماجد مجھے یہ باتیں مجھے بتا رہا تھا تو وہ بہت ڈرا ہوا تھا اور ایسے باتیں کر رہا تھا کہ جیسے وہ کسی کو اپنے اردگرد محسوس کر رہا ہو اس کے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے وہ بات کرتے ہوئے بار بار ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا ۔ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے پر ماجد تم نے یہ سب اپنے ابو کو کیوں نہیں بتایا ؟ ماجد نے کہا دیمی بھائی میں نے بتا کر مرنا تھا کیا ۔ یہ سنتے ہی میں نے حیرانی کہا ماجد یہ تم کیا کہہ رہے ہو کس نے مارنا تھا تمہیں۔۔۔ ؟؟ ماجد نے پھر سے ڈرے ہوئے انداز میں ادھر اُدھر دیکھا اور آرام سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا بھائی جب میں دروازے سے دور بھاگ رہا تھا تو میری کان میں وہی خوفناک آواز آئی کسی کو کچھ مت بتانا اور اپنا منہ بند رکھنا ورنہ تو مرے گا ۔۔ بس اسی وجہ سے میں ڈر گیا اور ابو کے سامنے چپ رہا ۔ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے سہی کیا تم نے اب تم ٹی وی دیکھو میں ذرا اس کو دیکھ کر آتا ہوں ماجد نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنی گردن کو نہ میں ہلاتے ہوئے بنا بولے مجھ روکنے کی کوشش کی اس دوران وہ بری طرح کانپ رہا تھا ۔ میں نے کہا میرے بھائی اطمینان رکھو مجھے کچھ نہیں ہونے والا یہ سب میں پہلے بھی دیکھ چکا ہوں پھر میں نے اپنا ہاتھ ماجد کے ہاتھ سے چھڑاتے ہوئے کہا اب تم آرام سے بیٹھو اور تم یہ کیوں بھول رہے ہو نایاب ہماری بہن ہے اور ہم اس کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دے سکتے ۔ یہ سن کر ماجد نے ہاں میں سر ہلایا اور کہا ٹھیک ہے دیمی پر آپ واجد بھائی کو بھی ساتھ لے جاؤ کیونکہ مجھے ڈر لگ رہا ہے میں آپ کے ساتھ جانا تو چاہتا ہوں پر مجھ میں ہمت نہیں ہو رہی ۔ میں نے ماجد کو کہا ارے نہیں نہیں تم یہی رہو میں بس ابھی آتا ہوں ۔ یہ کہہ کر میں اوپر کے کمرے کی طرف جانے لگا جو کہ نایاب کو بہت پسند تھا اور وہ سارا دن اسی کمرے میں رہتی تھی ۔ جب میں کمرے کے پاس گیا تو دروازا بند تھا میں نے کھولنے کی کوشش کی مگر دروازہ اندر سے لاک تھا پھر میں نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے نایاب کو آواز دی نایاب ۔۔۔ دروازا کھولو کیا تم مجھے سن رہی ہو۔۔؟؟ دیکھو مجھے تم سے بات کرنی ہے پلیز دروازا کھولو ؟؟۔لیکن مجھے کوئی جواب نہ ملا میں نے دوبارہ آواز دی اتنے میں دروازا کھل گیا پر دروازے پر کوئی نظر نہیں آیا ایسا لگ رہا تھا جیسے دروازا خودبخود کھل گیا ہے اور کمرے میں عجیب سی خاموشی تھی میں آہستہ آہستہ سے چلتا ہوا کمرے کے اندر داخل ہو رہا تھا لیکن مجھے کمرے میں نظر کوئی نہیں آرہا تھا میں نے آواز دی نایاب کہاں ہو اتنے میں کسی نے خوفناک سی آواز میں کہا مجھے ڈھونڈ رہے ہو کیا ؟؟ جب میں نے چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو نایاب دروازے کے اوپر والی دیوار سے چپکی ہوئی تھی جیسے کوئی چھپکلی ہو اسے دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے تھے اسی وقت وہ دھڑام سے زمین پر گری اور گرتے ہی عجیب سی آواز میں ہنسنے لگی میں نے ڈرتے ہوئے کہا نایاب یہ تم کیا کر رہی ہو ؟؟ اسی وقت اس نے میری طرف دیکھا تو وہ واقعی میں نایاب نہیں لگ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے نایاب کافی عمر کی ہو گئی ہے وہ بالکل ایک عورت کی طرح لگ رہی تھی ابھی میں اس کو حیرت سے دیکھ ہی رہا تھا کہ اتنے میں وہ مرد کی آواز میں غصے سے بولی کیا دیکھ رہا ہے آ ادھر میرے پاس آکر کر دیکھ مجھے ۔۔۔ میں کون ہوں پہچان مجھے یہ میرے ساتھ رہتی ہے اس سے پوچھ کون ہوں میں۔۔۔ اس کو مرد کی آواز میں بولتا دیکھ کر میں تو ڈر سے کانپنے لگا میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑنے لگے میں نے ہمت کر کے باہر بھاگنے کی کوشش کی تو وہ فوراً دروازے کے بیچ میں کھڑی ہو گئی اور مرد کی آواز میں ہی زور زور سے ہنسنے لگی اس کے منہ سے خون نکل رہا تھا جیسے جیسے وہ ہنس رہی تھی ویسے ہی اس کے منہ سے خون نکل کر زمین پر گر رہا تھا ۔ مجھے چل گیا تھا کہ اب اس نے مجھے یہاں سے جانے نہیں دینا میں آئیت الکرسی پڑھنے لگا لیکن وہ دروازے پر کھڑی ہو کر کبھی مرد کی آواز میں ہنس رہی تھی کبھی عورت کی آواز میں ۔ لیکن میں آئیت الکرسی پڑھتا رہا۔۔ اتنے میں واجد مجھے آواز دیتا ہوا اوپر آرہا تھا واجد کی آواز سنتے ہی میں نے جلدی سے کہا آجاؤ واجد میں اوپر ہوں اور جیسے ہی واجد اوپر آیا تو نایاب اچانک زمین پر گر کر بیہوش ہوگئی واجد نے جب نایاب کو زمین پر گرے ہوئے دیکھا تو وہ دوڑ کر نایاب کے قریب آیا اور اس کو اٹھاتے ہوئے واجد نے میری طرف دیکھا۔ لیکن میں اپنی جگہ سے نہیں ہلا پر میں صرف ان کی طرف دیکھتا رہا اتنے میں واجد نے تھوڑا تلخ لہجے میں مجھ سے کہا آپ کھڑے کھڑے دیکھ کیا رہے ہیں آئیں اٹھائیں اس کو میرے ساتھ یہ سنتے ہی چونکا اور بھاگ کر نایاب کو اٹھانے میں واجد کی مدد کی پھر واجد نے کہا اس کو کیا ہوا تھا اور یہ اس کے منہ سے خون کیسے نکلا ؟؟ میں نے کہا یہ نایاب نہیں ہے بلکہ یہ کچھ اور ہی ہے ۔ واجد نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں کیا ہو گیا ہے آپ کو دیمی بھائی؟؟۔ میں نے کہا یار میں سہی کہہ رہا ہوں مجھے لگتا ہے یہ منحوس شیطانی چیز ہے کیونکہ اس کے اندر سے کسی مرد کے بولنے کی آواز آتی ہے اور کبھی کسی عورت کی ۔ یہ سنتے ہی واجد نے تھوڑا طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھتے ہوئے اپنی گردن کو نہ میں ہلایا اور بولا آپ کا کچھ نہیں ہو سکتا بھائی آپ تو پتا نہیں میری بہن کے بارے میں کیا کیا کہتے رہتے ہیں آپ کی باتوں سے تو لگتا ہے جیسے میری بہن کوئی جن یاں چڑیل ہے جبکہ یہ بیچاری تو معصوم اور نہایت ہی خوش مزاج لڑکی ہے پھر بھی آپ اس کے بارے میں ایسا سوچتے ہیں ۔ میں نے کہا یار واجد میں جانتا ہوں کہ نایاب ایک بہت ہی اچھی لڑکی ہے پر میں ان شیطانی چیزوں کی بات کر رہا ہوں جو کہ اس کے جسم میں داخل ہو گئیں ہیں وہ بہت ہی خوفناک اور خطرناک ہو سکتی ہیں ۔میری یہ بات سن کر واجد نے کہا اچھا اب بس کریں میں کبھی نہیں مانوں گا کہ کوئی ایسی ویسی چیز نایاب کے اندر ہے ۔ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے تو پھر اپنے بھائی ماجد سے پوچھ لو۔۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Blog ads